ضم شدہ قبائلی اضلاع

حکومت نے جب سابقہ فاٹا کے علاقے کوکے پی کے میں ضم کرنے کا سوچا تھا تب کچھ سیاسی پارٹیوں کے اس پر تحفظات تھے ۔یہ تحفظات ایسے نہیں تھے کہ ان علاقہ جات کو بندوبستی علاقوں کا حصہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ تحفظات کچھ ایسے تھے کہ اس میں تمام عوامل کو مد نظر رکھا جائے اور خوب تیاری کے بعد یہ عمل سرانجام دیا جائے۔ لوگوں میں اس عمل کے حوالے سے اگاہی بڑھانے اور نئے حالات کی مناسبت سے تعلیم کو پہلے فروغ دیا جاتا اور یہاں پر بسنے والوں کو یہ احساس دلایا جاتا کہ حقیقی معنوں میں یہاں ترقی کاسفر شروع ہونے کو ہے جس کی بنیاد یقینا تعلیم ہی ہے جس سے لوگوں کے رویے میں تبدیلی آتی ہے اور اس کی ضرورت تھی تا کہ لوگ پولیس کے نظام سے بھی متعارف ہو سکیں اور یہاں جو کالے قانون انگریز کے دور سے لاگو تھے اُن کو بھی ہٹایا جا سکے ۔ تا ہم ان علاقوں کو ضم تو کر لیا گیا مگر جو کام ان علاقوں میںہونے چاہئیں تھے وہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہیں۔ ایف سی آر کے تحت یہاں کا حاکم پولیٹیکل ایجنٹ ہوتا تھا اور لا اینڈ آرڈر کو لاگو رکھنے کے لئے یہاںخاصہ دار ، لیویز ، سکاﺅٹس فرنٹیر کانسٹیبلری وغیرہ تھے اب جو پولیس کا دائرہ ان علاقوں تک بڑھایا گیا ہے اور ساتھ 2017 میں فاٹا بل اس علاقے میں عدالتوں کو رسائی دینے کے لئے پیش کیا گیا مگر اس پر ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں مکمل عدالتی نام کو لاگو کیا جائے اور پولیس فورس کو اپنی رِٹ قائم کرنے کےلئے پورے وسائل مہیا کئے جائیں۔ اب ان اضلاع میں جو کرنے کے کام ہیں ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اس علاقے میں چونکہ تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی گئی اس لئے اس طرف پوری توجہ دی جائے ۔ہر ضلع میں سکول اور کالجز کھولے جائیں اور ان کو مکمل سٹاف دے کراس علاقے کی تعلیمی ضروریات کو آگے بڑھایا جائے ۔ اس علاقے میں تعلیم کی کمی تو بہت ہے جس کو پورا کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اسی طرح غربت کو دور کرنے کی بھی ضرورت ہے جس کےلئے حکومت پاکستان کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ یہاں کی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ اور یہاں کے لوگ اپنی روزی روٹی کےلئے لاہور اور کراچی کا رخ نہ کریں اور ان کے د روازے پر ان کو روزی روٹی کے ذرائع میسر آئیں یہ تو معلوم نہیں کہ ان علاقوں کو پاکستان بننے کے بعد بھی کیوں پسماندہ رکھا گیا ہے مگر اب چونکہ یہ بندوبستی علاقے بن چکے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں پر سکولوں اور کالجوں کے علاوہ کم از کم دو یونیورسٹیاں ان اضلاع کے لئے علیٰحدہ سے قائم ہوں جو ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کریں ایک اور بات جو ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ان علاقوں کو انٹرنیٹ کی سہولیات بھی دیجائیں اس لئے کہ3G اور4Gکا استعمال موجودہ حالات میں تعلیمی سرگرمیوںکو جاری رکھنے کےلئے ضروری سمجھا گیا ہے اور ان اضلاع کے طلباءتو اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہی رہے ہیں ۔ خیبر پختونخوا حکومت کو اپنے ان اضلاع کی ترقی کےلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے کہ باقی اضلاع و ماشا اللہ کافی ترقی یافتہ ہیں صرف ان ہی اضلاع کو ترقی دینے کی ضرورت ہے اور خلوص نیت سے کوشش کی جائے تو کام ناممکن نہیں۔ سابقہ فاٹا کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانا ایک مشکل کام ضرور ہے تاہم اس کاسرانجام دینا بھی اہم ہے ۔