پاکستانی عوام کو حقیقی مسائل اور مشکلات پر پریشان ہونے سے زیادہ، سیاسی گہماگہمی بھاتی ہے‘ اگر اس وقت ملک کے اندر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مقابلہ جاری ہے تو امریکہ میں صدارتی انتخابات پر بھی گہری نظر لگی ہے۔ اگر حقیقی صورتحال دیکھی جائے تو عوام کو نہ تو مہنگائی کی زیادہ پرواہ ہے اور نہ ہی کورونا کی تیزی سے بڑھتے قدم دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر اجتماع اور چوپال کا موضوع سیاست ہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کی ”نورا کشتی“ بھی عوام کےلئے بحث مباحثہ کا دلچسپ حوالہ بن چکی ہے۔ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو آٹا دالیں اور سبزیاں بھی دوگنا سے زیادہ مہنگی ہوچکی ہیں، ادویات کی قیمتیں سن کر ہی دل کا دورہ پڑ جاتا ہے لیکن ہم ”غریبوں“کے انداز تبدیل نہیں ہو سکے اگر کسی کو شک ہے تو کسی شادی کی جملہ رسومات اور تقریبات ہی دیکھ لیں‘ فضا میں اڑتے نوٹ کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ چھ ماہ تک شادی ہال بند تھے تو شادیاں بھی رک گئی تھیں، حالانکہ سفید پوش اور شرفاءکےلئے یہ موقع تھا کہ مجبوری کے تحت سادگی سے بچوں کی شادیاں کر لیتے، لیکن سب ہی شادی ہال کھلنے کا موقع دیکھ رہے تھے تاکہ ارمان پورے ہو سکیں ایسے عوام کو مہنگائی سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے‘ سوشل میڈیا پر اکثراصلاح پسند قسم کے لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ ٹماٹر، گوشت یا کوئی دوسری چیز چند دن خریدنا بند کر دیں تو قیمتیں خود واپس آ جائیں گی، لیکن اس کا الٹا اثر ہوتا ہے ،لوگ مہنگی اشیاءضرورت سے زیادہ خریدنے لگتے ہیں اور کورونا تو اب ایک مذاق بن چکا ہے. دن بدن نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے، چند سو سے بڑھتے بڑھتے یہ تعداد ہزار کو پہنچ چکی ہے حکومتی ہدایات بھی جاری ہیں. "مائیکرو سمارٹ" لاک ڈاو¿ن کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے اسلام آباد میں ضلعی انتظامیہ نے ماسک نہ پہننے والے کو گرفتار کرنے کی دفعہ لگا دی ہے، لیکن کسی کو بھی کوئی پرواہ نہیں‘ ہو سکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والے سیاسی اجتماعات میں حد سے بڑھنے والی بے احتیاطی کا مضر نتیجہ بھی سامنے آ رہا ہو لیکن "ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں" کے مصداق عوام کو اکٹھا کرنے کے کئی پروگرام زیر غور ہیں‘ حکومت کا سارا زور بھی تعلیمی اداروں پر چلتا ہے، جب جی چاہا بند کر دیا، حالانکہ انہی طلباءکو سکول و کالج میں آنے سے پہلے جس حال میں ٹرانسپورٹ کے ذریعے لایا جاتا ہے ،اصل خطرہ وہی ہوتا ہے. پھر مارکیٹوں کے اندر اور خوشی و غمی کے اجتماعات میں سماجی فاصلے کا کوئی تصور بھی نہیں رہ گیا‘ اب تو مساجد میں بھی فاصلے سمٹ گئے ہیں، اور سیاسی اجتماعات میں جوش و خروش دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عوام سیاستدانوں کے کتنے دیوانے ہیں‘ حد تو یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں کے جلسے بھرپور ہوتے ہیں۔امریکہ میں صدارتی انتخابات میں آدھے سے زیادہ ووٹ ڈاک کے ذریعے پول ہوگئے تھے، حالانکہ وہاں پولنگ بھی ہماری طرح نہیں ہوتی اور نہ پولنگ بوتھ پر بے ہنگم صورتحال ہوتی ہے‘ لیکن پھر بھی لوگوں نے گھر بیٹھے ووٹ پول کرنے کو ترجیح دی‘ اس کے برعکس ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب جلسے جلوسوں سے حکومت یا عوام کی حالت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، پھر بھی کسی طرح کا ڈر یا خوف لوگوں کو روک نہیں سکتا‘ اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ابھی بھی پاکستانیوں کی اکثریت ایسی ہے، جو کورونا کو ایک حکومتی ڈرامہ قرار دیتی ہے‘ اس کے باوجود حکومت کی طرف سے فون کال پر انتباہی پیغام اور اخباری اشتہارات کے ذریعے عوام کو سمجھانے کی ناکام کوشش ہوتی ہے‘ چند ماہ پہلے ایک عالمی سروے میں پاکستانی قوم کو خوش مزاج قوم کا درجہ دیا گیا تھا، حقیقت ہے کہ جن حالات میں رہ کر ہم لاپرواہی اور بے احتیاطی سے خوشیاں مناتے ہیں، یہ بھی سخت جان ہونے یا دوسرے لفظوں میں مضبوط ایمیونٹی کا ایک ثبوت ہے‘ نہ مہنگائی کی پرواہ اور نہ کورونا کا خوف، ایسی بے مثال قوم کہاں ملتی ہے ؟بعض مسائل سنجیدہ ہوتے ہیں اور ان کاسنجیدگی کے ساتھ سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے میں ان کومذاق سمجھنا اس کو زیادہ گھبمیر بنادیتا ہے۔ اس وقت جو صورتحال ہے اس کو دیکھا جائے توکچھ ایسے ہی حالات نظر آرہے ہیں۔ کورونا وائرس نے ایک بار پھر حملے شرو ع کئے ہیں اور ماہرین کے مطابق اس مرتبہ یہ مرض زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آسکتا ہے تاہم غور اور فکر کی بات یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں بھی ہم نے کوئی خاص توجہ دینے کی بجائے اس کامذاق اڑایا اور پھر جب قدرت کی طرف سے رعایت ملی اور مرض کی شدت کم رہی تو ہم بے فکر ہوگئے۔ اب ایک بار پھر حالات بے قابو ہونے کا خطرہ ہے اور اگر سنجیدگی کے ساتھ اس کا مقابلہ بحیثیت قوم نہ کیا گیا تو اس سے ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے ۔