امریکی صدر کی تبدیلی

 امریکہ میں بالآخر جوبائیڈن صدر منتخب ہوگئے ہیں اگرچہ یہ نتائج ”غیر حتمی اور غیر سرکاری“ ہیں، لیکن جیت اتنی واضح ہے کہ نتیجہ تبدیل ہونے کا امکان نہیں۔ یہ انتخابات کئی حوالے سے تاریخی اور یادگار ثابت ہوئے۔ ایک تو کورونا کی بدترین صورتحال کے تحت پہلی بار ریکارڈ تعداد میں (10کروڑ سے زائد) ووٹروں نے ڈاک کے ذریعے ووٹ پول کیا، اس وجہ سے پولنگ ٹرن آو¿ٹ بھی ریکارڈ زیادہ آیا نومنتخب صدر جو بائیڈن نے امریکہ کے عمر رسیدہ ترین اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والے صدر ہونے کا ریکارڈ بنایا نائب صدر کملہ ہیرس نے پہلی خاتون اور بھارتی نژاد نائب صدر منتخب ہو کر ایک نیا اعزاز حاصل کیا اگرچہ نئے صدر آئندہ سال 20 جنوری کو حلف اٹھائیں گے، لیکن صدر ٹرمپ اگلے اڑھائی ماہ وائٹ ہاو¿س میں ایک علامتی صدر بن کر ہی رہیں گے‘ صدر ٹرمپ کے ماضی قریب کے بیانات اور ہار تسلیم نہ کرنے کے اعلانات سے ہمیں یہ امید لگ گئی تھی کہ امریکہ میں بھی دھاندلی کے الزامات کے بعد کوئی احتجاجی تحریک چلے گی، کوئی دھرنا شرنا ہوگا. جوبائیڈن کو سلیکٹڈ کہا جائے گا اور اس طرح ایک نئی تاریخ رقم ہوگی، لیکن صدر ٹرمپ کی طرف سے دھاندلی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کے اعلان کے باوجود اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، یہ اعزاز صرف ہمیں ہی حاصل ہے کہ صرف جیت ہی چاہتے ہیں۔ ابھی ہمارے ہاں بھی گلگت بلتستان میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ لیکن سیاسی درجہ حرارت آخری بلندی پر ہے اور شاید کچھ سیاسی پارٹیوں کی کوشش ہے کہ ان انتخابات کا انجام کسی پر تشدد تحریک پر ہو کوئی پارٹی ہارنے کو تیار نہیں اور ہارنے کا مطلب دھاندلی، کے نعرے کو تقویت دی جا رہی ہے۔ جہاں تک امریکی صدارتی انتخابات کا تعلق ہے تو وہاں جو امیدوار الیکشن ہار جائے، وہ دوبارہ امیدوار ہی نہیں بن سکتا، یعنی تاحیات صدارت کے لئے نا اہل سمجھا جاتا ہے، اور جیتنے والا بھی صرف دو بار الیکشن لڑ سکتا ہے اس کے باوجود وہاں یہ الیکشن زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بنتا۔ اس کے برعکس ہمارے سیاستدان ساری زندگی بلکہ نسل در نسل جان چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے، مگر ایک الیکشن ہارنے کو بھی قبول نہیں کرتے ، بہرحال یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں جمہوریت میں بھی آمریت ہی ملتی ہے اور ہماری تمام تر خواہش کے باوجود، امریکی عوام چند دن میں ہی اپنے امیدوار کی شکست کو ہضم کر جائیں گے اور تمام تر دعوو¿ں کے باوجود ٹرمپ بھی وائٹ ہاو¿س کو خالی کردیں گے‘ جہاں تک امریکہ میں ہونے والی اس تبدیلی کا پاکستان پر ممکنہ اثرات کا تعلق ہے تو ہمارے لئے ہاتھی ہو یا گدھا، دونوں ہی ایک جیسے جانور ہیں، اس کے باوجود پالیسیوں میں جو فرق آئے گا اس پر اگلے کالم میں بات ہوگی‘ البتہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کو 2008 میں ”ہلال پاکستان“ دیا گیا تھا۔ وہ کیری لوگربل کے خالق ہیں، جس کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نقصانات کی تلافی کے لئے امداد منظور ہوئی تھی‘ اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارا خیال رکھیں گے۔ تاہم ہر ملک اپنے مفادات کو اولین ترجیح دینے کا حق رکھتاہے اس لئے کسی اور ملک سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا بھی دانشمندی نہیں ، اصل ضرورت ملک کو خودکفیل بنانے اور معیشت کو مستحکم کرناہے جس کے بعد امریکہ اور دیگر ممالک میں واقعہ ہونے والی تبدیلیوں سے توقعات وابستہ کرنے اور ان کے ساتھ اپنے ملک کی قسمت جوڑنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔