امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ نہ صرف ترقی یافتہ ہے بلکہ بہت سے ممالک کو اپنی ترقی سے مستفید بھی کر رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو روس اور امریکہ میں مقابلہ تھا کہ دنیا کے کون کون سے ممالک اُن کے زیر اثر ہوتے ہیںاور کو ن کون اُن کے رویے کو اپناتا ہے۔جب طاقت کا گھمنڈ ہو تو بندہ بغیر سوچے ایسا کام کر جاتا ہے کہ جس سے اُس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جاتی ہے۔بس یہی کچھ ہوا روس کے ساتھ کہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں وہ ایک چھوٹے سے اپنے حامی ملک پر حملہ کر بیٹھا ۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑا لیتا تو بچ جاتا مگرطاقت کا غرور تھا کہ افغانستان کیا ہے روس کے مقابلے میں اور بغیر تاریخ کے اوراق پلٹے حملہ کر بیٹھا اور پھریوں ہوا کہ مملکت روس سمٹ کر پرانی شکل میں چلی گئی اور اب صرف روس ہے اور اب وہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت نہیں ہے بس ایک ملک ہے۔ اور جو ریاستیں اُس نے قبضہ کی ہوئی تھیں وہ اب دنیا کے نقشے پر پورے پورے ملک ہیں۔ اسی لئے غرور اور تکبر سے منع کیا گیا ہے کہ یہ بندے کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ امریکہ میں انتخابات میں دو ایسی ہستیوںکا مقابلہ تھا کہ جن میں ایک ابھی تک امریکہ کی صدارت پر براجمان ہے اور دوسری شخصیت امریکہ میں آٹھ سال تک نائب صدارت پر رہ چکی تھی۔ ٹرمپ امریکہ کا صدر تھا اور اس گھمنڈ میں تھا کہ وہ دوسری دفعہ بھی صدارتی الیکشن جیت جائے گا۔کیونکہ ا‘س نے بزعم خو د امریکہ کی ترقی اور رعب میں اضافے کےلئے بہت کچھ کیا ہے اس لئے عوام اُسی کو چنے گی ۔ دوسری جانب جوبائیڈن بھی کچھ کم نہیں تھا کہ اُس کو بھی امریکن نائب صدارت میں دیکھ چکے تھے۔ اور ٹرمپ بھی جانتے تھے کہ جوبائیڈن کا پلہ اُن پہ بھاری ہے اسی لئے ووٹوں کے دوران ہی ٹرمپ نے دھاندلی کے الزامات لگانے شروع کر دیئے تھے۔ ایسا آج تک امریکہ کے انتخابات میں کبھی نہیں ہوا کہ کسی بھی امیدوار نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے ہوں۔ امریکہ کے انتخابات ہمیشہ ہی پر امن اور بغیر الزامات کے مکمل ہوتے رہے ہیں اور جیسے ہی انتخابت مکمل ہو کر نتائج کا اعلان ہوتا ہے توہارنے والا امیداوارجیتنے والے کے گلے لگ کر اُسے مبارک باد دیتا ہے اور پھر سے کاروبار زندگی اپنی ڈگر پر چل پڑتی ہے ۔ اگر کوئی صدر بھی اپنا الیکشن ہارا ہے تو بھی اُس نے جیتنے والے کو گلے لگایا ہے اور اُس کے ساتھ چلنے کا عندیہ دیا ہے اور جیتنے والے نے بھی ہارنے والے کو گلے لگایا ہے اور اُس کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی بات کی ہے۔ اور پھر بڑے آرام سے اپنی ٹرم پوری کی ہے۔ یہ تو ہماری روایت ہے کہ انتخابات میں کبھی بھی اپنی ہار نہیں مانتے۔