سیاست اور وبا میں تیزی

ملک میں جو حالات ایک متعدی بیماری کے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں اور یہ بھی کہ حزب اختلاف کے جلسوں نے بھی سیاسی ہل چل مچا دی ہے۔دیکھا جائے تو حزب اختلاف اور حکومت ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔دونوں کاساتھ ساتھ چلنا ہی منزل تک پہنچانے کی ضمانت ہے ۔ یعنی جمہوریت کی گاڑی اسی طرح ٹریک پر رہتی ہے کہ اس کے دونوں پہیے کام کر رہے ہوں۔ حزب اختلاف کی تنقید برائے تنقید نہیں ہوتی یہ برائے اصلاح ہوتی ہے ۔اگر حزب اختلاف کی تنقید کو ذا تی لیا جائے تو پھر حکومتی کاروبار کا چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ حزب اختلا ف بھی ایک وقت میں حزب اقتدار ہو تی ہے اور اُس کی تنقید اس لئے ہوتی ہے کہ حکومت کی گاڑی صحیح سمت میں چلتی رہے اور جو غلطیاں کر کے وہ اقتدار سے محروم ہوئی ہے وہ غلطیاں حکومت نہ کرے۔ اگر حزب اختلاف کوئی اعتراض کر تی ہے تو اس کا جواب دینا حکومتی وزرا کا کام ہے اور اگر اُس کی تنقید بہتری کے لئے ہے تو وزرا کو اس کا مداوا کرنا چاہیے۔ وزارتیں اسی لئے ہوتی ہیں کہ وہ عوام کی بہتری کے لئے کام کریں اور حزب اختلاف کا کام ہے کہ وہ ایسی باتوں کی نشان دہی کرے کہ جو عوامی فائدے کےلئے ہیں اور حکومت کو کرنی ہیں۔ در اصل حکومت کے اتنے زیادہ کام ہوتے ہیں کہ بہت سے کاموں پر اُس کی نظر نہیں پڑتی اسی لئے ارکان اسمبلی جو کہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں وہ حکومت کو ان کاموںسے آگا ہ کرتے رہتے ہیں اور حکومت سے وہ کام کرواتے رہتے ہیں اور حکومت کے وزراءجن کا یہ کام ہوتا ہے وہ متعلقہ محکمے سے وہ کام کروا دیتے ہیں اور اگر کوئی کام نہ ہو رہا ہو تو اس پر حزب اختلاف کا کام ہے کہ تنقید کرے اور اس کو اسمبلی میںبھی لائے اور عوامی سطح پر بھی اس کو اجاگر کرے۔یہاں حزب اختلاف کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسمبلی میں محض مخالفت برائے مخالفت او ر تنقید برائے تنقید کا رویہ نہ اپنائے بلکہ جہاں حکومت نے کوئی اچھا کام کیا ہے اس کی تعریف بھی ہوجائے تو بہتر ہے۔ اس وقت جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ بالکل ہی مختلف منظر ہے ، جہاں حزب اختلاف نے مخالفت او ر تنقید کرنے ہی کواپنی ذمہ داری قرار دیا ہے اور عوامی مسائل کو ایک طرف چھوڑ دیا ہے وہاں حکومتی اراکین بھی حز ب اختلاف کی رائے کو وقعت دینے کیلئے تیارنظر نہیں آتے۔ اب اس رویے کو دونوں طرف سے تبدیل کرنا ہوگا۔ا ب بات کرتے ہیں وبا کی جس نے ایک بار پھر زور پکڑی ہے اور جہاں اس کا شکار افراد میں اضافہ ہونے لگاہے وہاںاموات کی شرح بھی بڑھ گئی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں نے اپنے جلسوں اورجلوسوںکو ہی اولین ترجیح قرار دیا ہے اور یہ سوچے بغیر کہ اس سے وبا ءمیں تیزی آرہی ہے اور اس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہے،اس وقت دونوں طرف سے جہاں گلگت بلتستان میں میں جلسے ہورہے ہیں وہاں ملک کے دیگر حصوں میں بھی جلسوں کاسلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے حز ب اختلاف کو ضرور سوچنا چاہئے کہ سیاست پھر بھی ہوسکتی ہے تاہم انسانی جانوں کا ضیاع ایک دفع ہوجائے تو پھراس کی تلافی ممکن نہیں۔ اس لئے حزب اختلاف کو اپنی سیاسی تحریک کسی اور وقت پر ٹالنا چاہئے اور اس وقت تمام توجہ وباءکا مقابلہ کرنے پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جس میں انہیں حکومت کا پورا ہاتھ بٹانا چاہئے کیونکہ وبا پرسیاست کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔اس تمام تناظر میں دیکھا جائے تو موجود ہ حالات میں جوحقیقی چیلنجز درپیش ہیںان کامقابلہ ہی اولین ترجیح ہونا چاہئے اور اپنے باہمی اختلافات اور سیاست کو فی الحال ایک طرف رکھ کر بڑے اور اہم قومی مفادات کو مقدم رکھنا چاہئے۔ اس لحاظ سے کورونا وباءکا مقابلہ کرنا سب سے اہم ہے۔