جی بی الیکشن اور قومی سیاست پر اثرات


پاکستان کے شمالی علاقوں پر مشتمل صوبہ گلگت بلتستان ان دنوں سخت ہنگامہ خیزی کا شکار ہے‘ اس خطے کے عوام نے شاید پہلی بار ملک کی مرکزی سیاسی قیادت کے اتنی تعداد میں جلسے دیکھے ہوں گے‘ اس سے پہلے یہ لوگ سیر سپاٹے اور موج میلے کے لیے ہی ان علاقوں کا رخ کرتے تھے ، یہاں پر پہلے الیکشن میں پیپلز پارٹی جیت گئی تھی۔پی پی کو 15 نشستیں ملی تھیں جبکہ مسلم لیگ نواز 2 نشستیں حاصل کر سکی تھی‘ لیکن2015 میں ہونے والے دوسرے الیکشن میں مسلم لیگ نون نے15نشستیں جیت لیں‘ مگر حکمران پیپلز پارٹی کو صرف ایک نشست ملی تھی اس وقت دونوں سابق حکمران جماعتوں کی نئی قیادت اپنی پارٹی کے امیدواروں کی مہم چلا رہی ہے ‘بلاول بھٹو اور مریم نواز دونوں بھرپور جلسے کر رہے ہیں اور اپنی اپنی کامیابی کے دعوے بھی کر رہے ہیں ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کی انتخابی مہم وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور چلا رہے ہیں، ان کی مدد کےلئے چند دیگر حکومتی زعماءبھی موجودہیں لیکن پاکستان کے عمومی سیاسی ماحول کی طرح اپوزیشن جماعتیں دھاندلی کی پیشگی اطلاع بھی دے رہی ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم جیت گئے تو ٹھیک اور اگر ہار گئے تو یہ دھاندلی ہو گی‘ پاکستانی اپوزیشن متحد ہے اور حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کر رہی ہے ،لیکن اس کا کوئی اثر جی بی میں نظر نہیں آتا عام طور پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیں گی اور مولانا فضل الرحمان بھی ان سے تعاون کریں گے‘ مولانا فضل الرحمن کے اس خطے میں بڑی تعداد میں ووٹ موجود ہیں لیکن کسی ایک حلقے میں جیت کی تعداد نہیں، البتہ یہ کسی دوسرے امیدوار کو جتوانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی بھر پور عوامی طاقت کااستعمال کر رہی ہے ۔مقابل امیدواروں کو دستبردار بھی کروا رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کسی پارٹی کے بارے میں پیشگوئی ممکن نہیں کچھ روایتی سروے رپورٹس تحریک انصاف کی جیت کا کہہ رہی ہیں اور اس خطے کے پہلے دو انتخابات کا جائزہ بھی یہی بتاتا ہے کہ پاکستان میں جس پارٹی کی حکومت ہے، وہی یہ الیکشن جیتتی ہے‘ گلگت بلتستان میں اہم مسئلہ پولنگ کے دن ووٹروں کو گھروں سے نکال کر پولنگ سٹیشنز پر لانا ہوتا ہے] دوردراز اور مشکل مقامات سے ووٹر لانا مشکل کام ہوتا ہے، عام ٹرانسپورٹ بھی میسر نہیں ہوتی‘ اس بار تو پولنگ کے دن بارش اور برفباری کی پیش گوئی ہے‘ اگر ایسا ہوتا ہے تو نقل و حرکت میں مزید مشکلات بڑھ جائیں گی، پتہ نہیں یہ برف کس کس کی امیدوں پر پڑے گی‘ ہار جیت سے قطع نظر ان انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی نئی قیادت کو سیاست سیکھنے کا خوب موقع ملا ہے‘ بلاول اور مریم نے ایک تو دن رات جلسے کر کے عوامی سیاست کا عملی تجربہ حاصل کیا، دوسری طرف بی بی سی کو انٹرویو دے کر قومی سیاست میں بھی ہلچل مچادی‘ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا اب زیادہ دارومدار جی بی الیکشن پر ہے اگر اپوزیشن جیت گئی توپی ڈی ایم کی تحریک میں جوش و خروش بڑھ جائیگا اور اگر ہار گئی تو دھاندلی پر احتجاج بھی تحریک میں شامل ہوجائےگا۔