زبان کا مسئلہ

باد شاہ نے باورچی سے کہا کہ مجھے ایسا گوشت پکا کر دو کسی بھی جسم میں سب سے عمدہ ہو ۔ باورچی نے بکرے کی زبان کاگوشت عمدگی سے بنا کوبادشاہ کے سامنے پیش کردیا۔ کچھ دن بعد باشاہ نے پھرفرمائش کی کہ آج مجھے ایسے حصے کا گوشت بنا کر دو جو کسی جسم میں سب سے خراب ہو۔ باورچی نے دوسرے دن بھی زبان ہی کا گوشت پکایا‘باورچی نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ جسم کا وہ حصہ ہے کہ اگر صحیح استعمال کیا جائے تو یہ کمال کی چیز ہے اور یہ انسان کو افضل ترین بنا دیتی ہے اور اگر اس کو بری طرح استعمال کی جائے تو یہی انسان کو بد ترین مقام پر پہنچا دیتی ہے ۔ ہمیں سکولوں میں ہمیشہ یہی پڑھایا گیا کہ زبان کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔ جب بزرگوں سے بات کرو تو بہت ہی شائستگی اور ادب سے بات کرو اور جب دوستوں سے بات کرو تو اس میں بھی شائستگی کا دامن نہ چھوڑو اور اس میں د ل کی بات کھل کر کرو ۔ جب مجمعے میں بات کرو تو مجمعے کی نفسیات کا خیال کرو مگر زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھو۔ دیکھا گیا ہے کہ اب کہ جب سے ہمارے نصاب میں سے وہ چیزیں نکال دی گئی ہیں کہ جن سے بچوں کاکریکٹر بنتا تھا ۔ جس سے ہمارے بچے سوسائٹی میں ایک مقام حاصل کرتے تھے ۔ جس سے باپ بیٹے میں اور ماں بیٹی میں اک ادب و لحاظ کا رشتہ استوار ہوتا تھا‘ کسی وقت جب انگریز دور میں ہندوستان میں نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں اور انگریزی ادب کو متعارف کروایا گیا تھا تو اس میں تو باپ بیٹے اور ماں بیٹی کے رشتے میں وہ ادب و لحاظ نہیں ہے وہ جو ہمارے ہاں تھا اور جس نصاب تعلیم کا اثر یہ ہونا شروع ہوا کہ گھروں سے ادب و لحاظ کا رشتہ ٹوٹنے لگاتو اکبر الہ آبادی کو کہنا پڑا کہ
ہم ایسی سب کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کوخبطی سمجھتے ہیں
 اب ہم اکبر الہ آبادی کے دور سے بہت آگے نکل آئے ہیں اور ہم نے وہ سب کتابیں گلے لگا لی ہیں کہ جن سے اکبر الہ آبادی کو شکوہ تھا اور وہ سب کتابیں جو ہمیں بزرگوں کا ادب و لحاظ سکھاتی تھیں ان کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے اور جو کتابیں ادب واداب، سلیقہ اور قرینہ سکھاتی ہیںوہ ہم نے ایسے دور رکھ دی ہیں کہ دیکھنے میں بھی نہیں آتیں۔ ۔ اسی طرح فارسی ادب اور پنجابی ادب اور پشتو ادب کی کتابیں کہ جن کا پڑھنا ہماری تہذیب کا ایک حصہ تھا وہ بھی ہم نے کہیں دور پھینک دی ہیں‘یہ وہ کتابیں تھیں کہ جو ہمیں اچھے برے کی تمیز سکھاتی تھیں‘تہذیب و تمدن سے آشنا کرتی تھیں، ان سے پیچھا چھڑا کے ہم وہ کچھ پڑھنے لگے کہ جس سے بچے بوڑھے ایک ہی گاڑی کے ڈبے میں سوار ہو گئے ہیں اور رکھ رکھاﺅ کا خاتمہ ہوا ہے۔۔ اب غالب کا یہ شعر بے کار ہو گیا ہے کہ
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
 تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
 اب ظلم یہ ہوا ہے کہ یہ زبان سیاست میں بھی در آئی ہے اور سیاست جیسی شائستہ شے بھی ناشائستگی کی زد میں ہے‘ اب تو لگتا ہی نہیں ہے کہ جو سیاست دان تقریر کر رہاہے یا بحث کر رہا ہے وہ واقعی ہماری ہی تہذیب سے متعلق ہے۔