جمہوریت کا حسن

جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے کہ جس میں ہرا نسان کو اپنے د ل کی بات کرنے کی آزادی ہوتی ہے ۔ جس کی مرضی جو کہے ۔ چاہے تو اپنے ہی بھیجے ہوئے نمائندوں کو ہدف تنقید بنا ئے یا ان کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابے ملا دے‘ اسکو کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ جمہوریت کا یہ بھی حسن ہے کہ اس میں دونوں جانب کے لوگ یعنی حز ب اقتدار اور حزب اختلاف دن بھر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہیں اور رات کو قہقہے لگاتے ہوں اور عوام ہر روز اپنے اپنے لیڈروں کی تعریف میں ایک دوسرے کے گلے پڑ رہے ہوتے ہیں ۔ حکمران جماعت عوام کو نت نئے ترقیاتی پروگراموں کے تحفے دے رہی ہوتی ہے جو کم از کم اُن کے دور حکومت میںکبھی بھی مکمل نہیںہوتے اور ان نامکمل منصوبوں کو سامنے رکھ کر ایک دفعہ پھر عوام سے ووٹ لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ اُنکو ہی حکومت میں بھیجیں تا کہ ان کے شروع کردہ منصوبے مکمل ہو سکیںکیوں کہ اگر اُن کو دوبارہ حکومت نہ ملی تو یہ منصوبے نامکمل رہ جائیں گے ‘وہی عوام کہ جن کے گھروں میں جاکر یہ لیڈر ووٹ مانگ رہے ہوتے ہیں جب اقتدار میں آتے ہیںتو ان عوام کا اپنے لیڈروں سے ملنا بھی ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہی شخص جو اُن کے دروازے پر ووٹ کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے اُن کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ اس سے زیادہ حسن اس جمہوریت کا اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہ ووٹ مانگتے وقت آپ کے لئے بہت سے وعدے کئے جاتے ہیں کہ آپ کے گاو¿ںیا شہرکو پیرس بنا دیا جائے گا اور پھر آپ پورے پانچ سال اپنے گاو¿ں یا شہر کو پیرس بننے کے خواب دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ایک دفعہ پھروہی لوگ نئے وعدوں اور نئے چہروں کے ساتھ آپ کے دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں کہ آپ اُن ہی کو ووٹ دیں۔ اور آپ کو یاد نہیں رہتا کہ یہ تو وہی حضرت ہیں جنہوں نے تمہارے گاو¿ں کو پیرس بنانا تھا اور پھر آپ اُسی کو زندہ باد کے نعروں سے نواز رہے ہوتے ہیں۔ اُسے یاد ہی نہیں ہوتا کہ اُس نے اگلی دفعہ آپ سے کوئی وعدے کئے تھے اور پورے نہیں کئے ۔ مگر آپ کوبھی تو یاد نہیںہوتا کہ یہ وہی شخص ہے کہ جو آپ سے کچھ وعدے کرکے حکومت کے ایوانوں میں پہنچا تھا۔ اس لئے کہ پانچ سالوں میںآپ بھی سب کچھ بھول چکے ہوتے ہیںاور لیڈر کو بھی یاد نہیں رہتا اور پھر سے نیا کھیل شروع ہو جاتا ہے‘ گو کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں آپ اپنے لیڈر کا احتساب کر سکتے ہیں مگر ہم نے آج تک کسی بھی لیڈر کا احتساب ہوتا ہوا نہیں دیکھا‘حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا مطلب ہی یہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عوامی مسائل حل ہو اور عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلے ہوں جس کے لئے حزب اختلاف اور حکومت دونوں طرف بھار ی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس وقت جو حالات ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی توجہ اپنے ایجنڈے پر مرکوز ہے جس میں عوام کا دور دراز تک نام و نشان نہیں اور نہ ہی ان کے مسائل حل ہو نے کے لئے کو ئی منصوبہ بندی نظر آ رہی ہے۔