جب حکمت عملی کا فقدان ہو اور مشکلات سے نکلنے کےلئے روایتی ہتھکنڈے ہی استعمال ہوں، تو پھر نتیجہ وہی نکلتا ہے، جو ملک بھر میں کورونا وائرس کے دوبارہ پھیلاو¿ کی صورت میں ہمیں درپیش ہے‘ اس میں شک نہیں کہ اس مہلک وائرس کے پہلے دور میں ہمیں خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم نقصان کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہم نے اس کو حکومتی حکمت عملی کی کامیابی کہنا اور کورونا کو شکست دینے کے دعوے شروع کر دیے، دنیا سے داد و تحسین وصول کرنے لگے۔ مگر اب دوبارہ جس تیزی سے مریضوں کی تعداد اور اموات میں اضافہ ہورہا ہے، یہ زیادہ تشویشناک صورتحال ہے‘ جہاں تک ہمارے عوام کا تعلق ہے تو ان سے اپنے ہی بھلے کی امید رکھنا فضول ہے، بالخصوص حکومتی ہدایات پر تو مزاحمت ہماری فطرت میں شامل ہے‘ موٹر سائیکل پر ہیلمٹ پہننا اور گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ باندھنا ہمارے فائدے اور حفاظت کے لیے ہے ،لیکن جب حکومت اس کی پابندی کا کہے تو یہ ایک چیلنج سمجھا جاتا ہے‘ اب کورونا سے تحفظ کی حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کے خلاف ہر کوئی مزاحمت کر رہا ہے‘ تاجر دکان بند کرنے سے انکاری ہیں تو شادی ہال میں ایس او پیز پر کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں‘ یہ بات سب کو پتہ ہے کہ ابھی تک کورونا کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا حفاظتی ویکسین بھی شاید اگلے سال ہی میسر ہوگی اور ہم تک پہنچنے میں مزید سال لگ سکتا ہے اس لیے صرف احتیاط ہی اس کا علاج ہے، جس کو اپنانے کے لیے کوئی تیار نہیں‘ ایک طرف کورونا نے مسائل و مشکلات میں اضافہ کیا ہے تو دوسری طرف گزشتہ کئی دنوں سے جڑواں شہروں کے باسی ایک بار پھر دھرنے کے نرغے میں آگئے تھے اور معمولات زندگی میں خلل پڑا تھا۔ انٹرنیٹ بند ہونے سے دفتری امور بھی بری طرح متاثر ہوئے۔یہ تو اچھا تھا کہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات نے معاملے کو جلدی نمٹا دیا۔حقیقت یہ ہے کہ اگر تنظیم کے اکابرین سے مذاکرات کے ذریعے دھرنے سے قبل ان حکومتی اقدامات پر اعتماد میں لیا جاتا، جو فرانس کے خلاف یا عالمی سطح پر، ایسی جسارت روکنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں تو شاید پرامن حل نکل آتا ویسے اس طرح کے حالات میں کہ جب مختلف اجتماعات میںتخریب کاری کے امکانات بھی ظاہر کئے گئے ہیں اور کورونا کو بھی تباہی پھیلانے کا موقع مل رہا ہے ۔سیاسی اور دیگر مقاصد کیلئے اجتماعات کو اب کچھ عرصے کیلئے خیرباد کہنا پڑیگا ویسے بھی حکومت اور عسکری قیادت قوم کو اس سے خبردار کر رہی ہے اور تخریب کاری کا امکان بھی ہے اور دیکھا جائے تو سب سے بڑھ کر دشمن تو اس وقت کورونا وائرس ہے جس کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت مربوط اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اگر حکومت نے حکمت عملی طے کر لی ہے تو پھر اس پر عملدرآمد میں کسی قسم کی نرمی نہ برتی جائے کہ کورونا کے خلا ف جوعارضی کامیابی ملی ہے وہ مستقل شکست میں تبدیل نہ ہوجائے۔