وبا کے موسم میں زندگی برتنے میں اورزندگی کے برتاو¿ میں بہت بدلاو¿ آ جاتا ہے اور آ جانا چاہئے،مگر یہ بھی سچ ہے کہ بہت کم اس موسم کو سنجیدہ لیا جاتا ہے، گزشتہ موسم بہار میں جب وبا کے موسم کی چاپ سنائی دینے لگی تھی تو عجیب گو مگو کی کیفیت تھی۔ یہاں وہاں سب لوگ اپنے اپنے طور پر اس کے حوالے سے اپنی رائے دے رہے تھے، مگر یہ بھی تھا کہ جو شخص بھی وباکے بارے میں جتنی اونچی آواز میں بات کرتا تھا اتنی ہی اس کی آواز میں پڑی ہوئی دراڑیںصاف دکھائی دیتی تھیں، جب دل اورزبان کے درمیان رشتے ٹوٹتے ہیں توبے اعتباریوں کی رتیں جوان ہونے لگتی ہیں۔ بس ایسے ہی دن تھے وبا نے جس شہر سے اپنا سفر آغاز کیا تھا اس وقت وہ شہر دنیا سے کٹ کر،مانو تنہا رہ گیا تھا اور شور محض اس بات پر اٹھ رہا تھا کہ جن لوگوں کے پیارے ا±س شہر میں پھنسے ہوئے تھے ان کو کسی طور واپس لایا جائے، اخبار چیخ رہے تھے، نیوز چینلز پر ایک ہنگامہ بپا تھا اور سوشل میڈیا تو جیسے قریب اور دور کی وہ کوڑیاں لا رہا تھا کہ بس توبہ ہی بھلی، سوشل میڈیا چونکہ ہر آدمی کی دسترس میں ہے سو ادب آداب اور ضوابط کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتااس لئے ہر طرف سے سچی جھوٹی کہانیاں سنائی جارہی ہیں اور چونکہ ہم ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں اور پھر اقتدار سے باہر بیٹھے سیاسی طالع آزما ایسی باتوں کو خوب ہوا دیتے ہیں تا کہ صاحبان اختیار و اقتدار کے خلاف محاذ بنانے میں آ سانی ہو، بظاہر وہ ہمدردی جتاتے ہیں، سوشل میڈیا پر وہاں پھنسے ہوئے کچھ جواں سال سٹوڈنٹس کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں،جسے دیکھ کر لوگ تڑپ اٹھے، مگر حقائق کا علم کم لوگوں کو ہوا،ڈھارس تب بندھی جب جناب ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا علم ہوا جس کا مفہوم یہی تھا کہ وبا کے علاقے کی طرف مت جاو¿ اور اگر وہاں ہو تو پھر وہاں سے باہر مت نکلو۔ اب جو بھی ہوا احتیاط نہیں برتی گئی اور وائرس کو ساتھ لے کر شہر سے نکلنے والے لوگ دنیا بھر میں پھیل گئے ، ہمارے ہاں ایک بار پھر اسے سیاست کے گز سے ناپنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ اس کے علاج کے لئے ہر شخص ڈاکٹر اور حکیم بن گیا اور یہ تو پہلے سبق کے طور پر ہماری گھٹی میں پڑا ہوا ہے کہ’ ’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا “ سو جس نے جو کہا اس کو حرف آخر سمجھ کر اس پر عمل شروع کر دیا،خوف اور ڈر کی بنیاد بھی یہی ہے کہ سنی سنائی پر یقین کیا جائے،سو اس کی وجہ سے بھی یار لوگوں نے اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔لیکن یہ سب مفروضے اس وقت دم توڑ گئے جب پوری دنیا کی طرح یہ علاقہ بھی اس سفاک وائرس کا شکار بنا۔ گھروں میں نظر بندی کا چلن عام ہوا اور شب و روز بھاگنے والے کار دنیا سے کنارے پر ہونے میں ہی عافیت تلاش کرنے لگے لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس کی لپیٹ میں آ گئے، خدا خدا کرتے اس کا زور ٹوٹا،کم ہوا تو زندگی کی رونقیں بحال ہونے لگیں، خیال تھا کہ جلد ہی یار لوگ اس موسم کی سفاکی کو ” رات گئی، بات گئی “ کہہ کر بھول جائیں گے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ ذرا ہاتھ ہولا رکھنے کے بعد وبا کا یہ سر پھرا موسم پھر سے آنکھیں دکھانے لگے لگالیکن جو بات سانس چھوٹے کر رہی ہے وہ یہ بھی ہے کہ اس موسم کے پہلے پھیرے میں جو قدرے احتیاط برتی گئی تھی اب اس احتیاط کا عشر عشیر بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا، کل غالب نے کہا تھا
رنج سے خوگر ہو ا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
شاید اسی طرح اس وائرس کی ساری جان لیوا شدتیں بھلائی جارہی ہیں، مجھے اس کا زیادہ تجربہ پشاور سے لاہور جاتے ہوئے ہوا ،نہ تو گاڑیوں میں ان ضوابط اور آداب کا خیال رکھا جا رہا تھا اور نہ ہی انفرادی طور پر کوئی احتیاط برتی جارہی تھی، ماسک کا استعمال تو جیسے لوگوں کی چھیڑ بن چکا ہے، سینی ٹائزر کا جو پچھلے موسم میں استعمال ہوا تھا سو ہوا،مجھے جس بڑے نام کی ایک کوچ میں جانا تھا ، اس میں بزنس کلاس کی محدود سیٹیں ، الگ الگ تھیں مگر باقی سیٹوں میں لوگ جڑ کر بیٹھے ہوئے تھے اور جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پوری کوچ میں صرف ایک صاحب نے ماسک لگا رکھا تھا۔ حالانکہ ٹکٹ گھر سے لے کر کوچ کے دروازہ تک جلی حروف میں ” نو ماسک نو ٹکٹ اور نو ماسک نو انٹری“ لکھا ہوا تھا۔ ، اپنے طور پر اگر کسی کے پاس سینی ٹائیزر ہو تو ہو انتظامیہ نے اس کا اہتمام نہیں کیا تھا، اسی طرح لاہور ٹرمینل کی حالت پشاور کی نسبت بہت بری تھی ،ایک ہنگامہ،افراتفری اور دھکم پیل کا سا سماں تھا، غنیمت تھا کہ حکومت پنجاب کی گاڑی ٹرمینل پر منتظر تھی ورنہ رکشاو¿ں کے رحم و کرم پر ہوتے، لیکن گاڑی ٹرمینل سے ہوٹل تک جن شاہراو¿ں سے گزری وہی لاہور کی روایتی بھیڑ،ٹریفک کی ابتری،گرد اور آلودگی کا راج ہی نظر آ یا اور پورا راستہ کوئی ایک شخص ایسا نہ تھا جس نے ماسک کا تکلف کیا ہو۔ سو چا کہ کیا ہم لوگ کچھ زیادہ بے فکرے ہیں یا صاحبان اختیار و اقتدار اپنے لوگوں تک احتیاط کا پیغام پہنچانے میں ناکام ہو رہے ہیں،خرابی کہاں ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ سرکار کی ساری توجہ وبا کے موسم میں حزب اختلاف کی سیاسی سرگرمیوںاور جلسوں جلوسوں کو روکنے پر مبذول ہے، میں نے کہا نا کہ’ جب دل اورزبان کے درمیان رشتے ٹوٹتے ہیں توبے اعتباریوں کی رتیں جوان ہونے لگتی ہیں‘۔اس کے برعکس سرکار اگر وبا کے موسم کی سنجیدگی سے تشریح کردے اور قواعد وضوابط پر سختی سے عمل درآمدکو یقینی بنائے تو بھلے سے جلسے ہوتے رہیں لوگوں کی دلچسپی کم کم رہے گی لیکن اگر بازاروں،شاہراﺅں،تعلیمی اداروں اور پارکوں میں کھوئے کھوئے چھلتا جا رہا ہو تو کون مانے گا کہ محض ’ ’سرکار خلاف “ جلسوں کے ہنگاموں سے ہی وبا کا موسم زیادہ پھیلتا ہے۔ ایسا ہے تو پھر یار لوگوں کو فراز کا ہم زباں ہوناسے بھلا کون روک پائے گا۔۔
دریدہ پیرہنوں کا خیال کیا آ تا
امیر شہر کی ا پنی ضرورتیں تھیں بہت