ایک دفعہ پھر کورونا نے خبروں کی ہیڈ لائنز پر قبضہ کر لیا ہے دوسری لہر تیزی کے ساتھ آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔اگرچہ بڑے اجتماعات روکنے کا حکومتی فیصلہ حالات کے مطابق اور درست ہے اگر شادی ہال بند ہو رہے ہیں، سکولوں کو تالے لگائے جارہے ہیں تو سیاسی اجتماعات پر پابندی لگانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اس وقت سیاسی مفاد سے بالاتر ہو کر عوام کی صحت اور جان کا خیال کرنا چاہیے یہ بات حکومت اور اپوزیشن دونوں کو معلوم ہے کہ اپوزیشن نے مشترکہ اور انفرادی طور پر جتنے جلسے کیے ہیں، وہ کافی موثر دکھائی دے رہے ہیں گزشتہ ہفتے میں مسلم لیگ نون نے سوات اور مانسہرہ میں بہت بڑے جلسے کرکے صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی طاقت دکھا دی ہے‘ اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پشاور میں طے شدہ جلسے کی اجازت صوبائی حکومت نے منسوخ کر دی ہے لیکن اپوزیشن نے بھی ہر حال میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے اسی طرح لاہور میں بڑے پاور شو کی اجازت بھی نہیں مل رہی ‘ جہاں تک گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کا تعلق ہے توانتخابی عمل پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ویسے بھی آزاد کشمیر کی طرح جی بی میں بھی عوام اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جس کی پاکستان میں حکومت ہو اس لئے بلاول کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات مضحکہ خیز ہی سمجھے جا سکتے ہیں‘ بات کورو نا کے پھیلاو¿ سے شروع ہوئی تھی جس سے بچاو¿ کیلئے حکومتی اقدامات تک پہنچ گئی۔ اب شادی ہال مالکان ہو یا سیاسی رہنما یہ تو حکومت کی اپیل پر عمل کرنے کو تیار نہیں اور زیادہ زور سکول بند کرنے پر دیا جا رہا ہے اگر دیکھا جائے تو سکولوں میں کسی نہ کسی حد تک ایس او پیز پر عمل بھی ہوتا ہے، کچھ اداروں نے صبح شام کی دو شفٹیں کر کے طلبہ کے درمیان فاصلہ بڑھانے کا انتظام کیا ہے۔کچھ نے ایک ایک دن چھٹی کر کے کلاسوں میں تعداد کم کردی ہے ماسک بھی پہنائے جاتے ہیں لیکن طلباءکو خطرات سکول حدود سے باہر موجود ہیں اور اگر سکول بند کر بھی دئیے گئے تو یہ طلبہ گھروں میں نہیں بیٹھے رہیں گے ،بلکہ بازاروں اور تفریح گاہوں میں جائیں گے پنجاب کے وزیر تعلیم نے درست کہا ہے کہ اگر سکول بند کرنے ہیں تو پھر بچوں کے گھر سے باہر نکلنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے کیونکہ شاپنگ مال اور سیر گاہوں میں زیادہ خطرہ ہے۔ اگرچہ ابھی اعلان نہیں ہوا لیکن سوموار سے سکول بند کیے جانے کا امکان بڑھ گیا ہے اس کے بعد والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو گھروں تک محدود رکھیں ‘ اس سال کے شروع میں دنیا بھر میں ہر طرح کی مذہبی اجتماعات پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی، پاکستان میں مساجد کھلی رہیں لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات تھیں مگر اب مساجد میں نماز اور جمعہ کی نماز کے لیے کوئی فاصلہ یا دوسری احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جارہیں ضرورت ہے کہ مساجد کی انتظامی کمیٹیاں ایس او پیز پر دوبارہ عمل کو یقینی بنائیں۔ لیکن سیاسی جلسے ہوتے رہے تو ان جلسوں کے ذریعے وائرس ضرور پھیلے گا اور دیگر طبقات کو ایس او پیز کی دھجیاں اڑانے کا بہانہ بھی مل جائے گایہ تاجر ہوں یا شادی ہال مالکان یا سکول سب یہی کہیں گے کہ سیاسی مقاصد کے لئے جلسوں کی اجازت ہے۔ لیکن محدود جگہوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ اسی لیے اپوزیشن کو سنجیدہ رویہ اپنا کر اپنی تحریک کو جلسوں کے بجائے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کی طرف موڑ لینا چاہئے جو اقدامات جنوری میں کرنے ہیں، وہ اب شروع کر دیں ۔ یعنی اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ حکومت کے خاتمے کے لئے ہنگامہ آرائی کی بجائے ایوان کے ذریعے قدم اٹھائے اس سے جہاں ان کا مقصد حاصل ہو جائے گا وہاں کورونا وباءکے باعث جوخطرات لاحق ہیں ان سے بھی بچا جا سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کئی چیلنجز درپیش ہیں جن کا مقابلہ کرنا بحیثیت مجموعی تمام سیاسی قیادت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک میں عوام کی کثیر تعداد کی شرکت اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور وہ مہنگائی اور دیگر مشکلات سے نجات پانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے ایجنڈے کو بھی توجہ دے رہے ہیں یہ حکومت کے لئے یقینا لمحہ فکریہ ہے۔ اس صورت میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے ایک طرح سے آزمائش ہے کہ وہ کس طرح اس حالات سے نبرد آزما ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ کورونا وباءکا تدارک کرنا اور عوام میں اس حوالے سے ایک بار پھر تحریک پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس وقت دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک طرف وباءمیں تیزی آرہی ہے تو دوسری طرف لوگوں نے احتیاط کا دامن چھوڑ رکھا ہے۔