سنکیانگ یا چینی ترکستان کا صدر مقام مجھے مسلسل حیران کر رہا تھا‘ یہاں بھی ہمارے لاہور کی میٹرو بس سروس کی طرح ایک ریپڈ بس سروس کی سہولت تھی لیکن اس کےلئے فلائی اوور اور آہنی جنگلے تعمیر کرکے شہرکی شکل بگاڑی نہیں گئی تھی‘ یہ بڑے اطمینان سے خراماں خراماں بقیہ ٹریفک کے پہلو بہ پہلو چلتی تھی اور نہایت عالی شان سٹیشنوں پر رکتی چلی جاتی تھی...کہیں کہیں ٹریفک اور اسکی سبک رفتاری کے درمیان معمولی سی حد بندی تھی... اسکے سوا نارمل پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی میسر تھی‘ مجھے غیب کا علم تو نہیں ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ لاہور کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی یہ جنگلا دیوار برلن کبھی نہ کبھی غیر ضروری قرار دے کر لاہور کی شکل کو پھر سے نمایاں کر دیا جائے گا اورمیٹرو بس سروس ارمچی کی مانند دیگر ٹریفک کے برابر میں رواں دواں رہے گی...چینی بھائی ہمیں صرف سنکیانگ کے قابل دید اور تاریخی مقامات ہی نہیں دکھاناچاہتے تھے بلکہ وہ ہمیں اس صوبے میں پچھلے پچیس تیس برس سے رونما ہونے والی ناقابل یقین ترقی سے بھی آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے چنانچہ چین کی ایک بڑی میڈیکل یونیورسٹی کا تفصیلی دورہ بھی ہمارے پروگرام میں شامل تھا‘ یعنی سنکیانگ میڈیکل یونیورسٹی...یونیورسٹی کے ایک ڈین جناب ڈاکٹر حیرتی مجید نے ”السلام علیکم“ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا...پوری یونیورسٹی میں گھما گھما کر ہمیں بھی کچھ گھما سادیا...پھر اس یونیورسٹی میں داخل پاکستانی طالب علموں کے ساتھ ان کے مسائل کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی‘ ان کی خواہش تھی کہ میں اپنی حکومت کی توجہ ان کے مسائل‘ خاص طورپر پاکستان میڈیکل کونسل کا انکی ڈگری تسلیم کرنے سے انکار کی جانب مبذول کروں اور اسے تسلیم کرنے کی سفارش کروں... یہ بھولے بادشاہ نہیں جانتے تھے کہ بے شک ان میں سے بیشتر نے میری بہت سی کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ ایک نوجوان طالبہ نے میرے ایک ناول پر آٹوگراف بھی حاصل کئے‘ لیکن اپنے ملک میں میری کچھ حیثیت نہ تھی‘ میں نہ تو کسی حکومتی ادارے کی توجہ حاصل کر سکتا تھا اور نہ ہی کوئی سفارش کرسکتا تھا...ایک عام سا ایم پی اے جس کی گھنی مونچھیں اس کی لبوں کے راستے زبان کو گدگدی کرتی ہیں‘ شکل سے سمندر کنارے اوندھا پڑا لدھر لگتا ہے وہ مجھ سے کہیں بڑھ کر صاحب اختیار ہے...مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر ایک مرتبہ پھر بے پناہ فخر ہوا جب درجنوں پاکستانی لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنی کلاس میں کھڑے ہو کر تالیاں پرشور بجا کر میرااستقبال کیا...میڈیکل یونیورسٹی کے سینئر سٹاف میں چینیوں کے علاوہ متعدد مسلمان ڈاکٹر بھی نمایاں تھے...مثلاً ڈاکٹر علائتی مجیدی‘ خاتون ڈاکٹر رانا قاسم‘ ڈاکٹر آغا حسن‘ ڈاکٹر ہمت‘ ڈاکٹر قریش یونس‘ ڈاکٹر محمود‘ خاتون ڈاکٹر شمشیر‘ ڈاکٹر مراد‘ ڈاکٹریاسین اورڈاکٹر شاہین وغیرہ...میں نے یہ بھی دیکھا کہ یہاں دنیا بھر سے آنےوالے طالبعلم کیسے یک جہتی اور محبت سے رہتے ہیں‘ وہ صرف میڈیکل کی تعلیم تک ہی محدود نہیں رکھے جاتے بلکہ انہیں چینی زبان اور ادب اور مقامی مسلمان ثقافت سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے‘ اس سنکیانگ میڈیکل یونیورسٹی کے آس پاس انگوروں اور خوبانیوں کی جو مہک تھی اور جو ماحول تھا وہ کسی حد تک نیو یارک کی مشہور عالم کولمبیا یونیورسٹی سے مماثلت رکھتا تھا‘ علم کی جستجو اور نسل انسانی کی بھلائی کیلئے تحقیق کے موسم بین الاقوامی ہوتے ہیں۔ ہم میڈیکل یونیورسٹی کے پرفضا اور پرتکلف ریستوران میں دوپہر کا کھاناتناول فرما کر نکلے ہیں تو مقام فیض راہ میں کوئی جچا ہی نہیں... سیدھے سنکیانگ یونیورسٹی میں جاپہنچے ہیں‘ وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ یونیورسٹی کی مرکزی عمارت کے ماتھے پر مجھے خوش آمدید کہنے کیلئے نیون سائن جلتے بجھتے ہیںمیمونہ جب اس نیون روشن استقبال سے قدرے پرمسرت ہونے لگی تو میں نے اسے سمجھایا کہ اے نیک بخت اگر میری جگہ کوئی بھی گھامڑ پاکستانی ادیب یہاں مدعو ہوتا اس کا استقبال بھی اسی نوعیت کا ہوتا‘ یہ محض میزبانی اور فراخ دلی کے مظاہر ہیں انہیں سنجیدگی سے نہ لینا...یہاں ان پاکستانی طالب علموں اور انکے پروفیسروں نے ہمیں خوش آمدید کہا جو یہاں چینی زبان کی تعلیم حاصل کر رہے تھے‘ سنکیانگ یونیورسٹی میں چینی زبان کی تعلیم حاصل کرنے والے ان لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنی چاہت سے ہمیں اتنا اسیر کیا کہ ہم ان کی کامیابی اور روشن مستقبل کیلئے دعاگو ہوگئے‘ ارمچی کے درمیان میں ایک اسلامی طرز تعمیر کا...کسی حد تک سمرقند کے امیر تیمور کے مقبرے کے مینار کی مانند ایک مخروطی مینار آسمان کو اٹھتا ہے جو اس شہر کے گرینڈ بازار کی ایک بلندوبالا علامت ہے‘ مینار کے آس پاس چین کا سب سے وسیع شاپنگ بازار ہے جہاں...بلند چھتوں والے وسیع بازاروں میں سنکیانگ صوبے کی مصنوعات‘ خشک پھل...زیور‘ ہینڈی کرافٹ‘ ملبوسات‘ جڑی بوٹیاں‘ عطریات‘ ظروف اور جانے کیا کیا زیب نظر ہوتا ہے۔ ایک دکان پر میمونہ ایک کم از کم پانچ سو برس پرانے ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن پاک کے نسخے پر جھکی اور فرفرپڑھنے لگی ... دکان کا مالک ایک ایغور مسلمان حیرت زدہ ہوگیا” کیا آپ حافظہ ہیں؟“ میمونہ سرڈھانپے اس نایاب نسخے کی تلاوت کرتی رہی کہ اس کے آخر میں لاہور کے...شیرانوالا مسجد کے مولانا احمد علی کا تذکرہ تھا اور اسکے والد یعنی میرے سسر چوہدری عبدالرحمان مولانا کے ایک خلیفہ تھے۔یہ کیسے ممکن ہو سکتاہے کہ یہاں چینی ترکستان کے شہر ارمچی میں ایک قدیم قرآن پاک کے نسخے کے آخر میں میمونہ کے ابا جی کے مرشد مولانا احمد علی لاہوری کے نام نقش ہو...وہ قرآن پڑھتی جھکی جھکی جاتی تھی۔