ہمیں اپنے اندرونی مسائل سے ہی چھٹکارا نہیں مل رہا اور دنیا میں نئی سیاسی اور تزویراتی بساط بچھانے کی تیاریاں ہو رہی ہے‘ امریکی انتخابات میں صرف صدر ہی نیا نہیں آ رہا، بلکہ تمام عالمی پالیسیاں بھی نئی آرہی ہیں، نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں‘ یہ تبدیلیاں سب سے زیادہ ہمارے اردگرد رونما ہو رہی ہیں‘ اس سال کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ بھی باقاعدہ رخصت ہو جائیں گے، انہوں نے افغانستان سے فوج نکالنے کے لئے جو دلیرانہ فیصلہ کیا تھا، وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے گلے کی پھانس بنا ہوا تھا‘ بالخصوص طالبان کو سیاسی طور پر ایک طاقت تسلیم کر کے براہ راست مذاکرات کرنا ہضم نہیں ہو رہا تھا‘ ٹرمپ کی کوششوں کے باوجود کچھ افغان داخلی مسائل اور بھارت کی شرارتوں سے امریکی انخلا مکمل نہیں ہو سکا اور اب نئی امریکی انتظامیہ اس معاملے پر پاکستان کو کیا اہمیت دیتی ہے، یہ ابھی کہنا مشکل ہے، امکان یہی ہے کہ پاکستان پر دباو¿ بڑھے گا ‘مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا واضح موقف ہے کہ فلسطین کی آزادی اور منصفانہ حل تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات ممکن نہیں اور یہ موقف کسی دوسری ملک کی وجہ سے نہیں بلکہ قائداعظم کا ہے، اور اسی کے ساتھ مسئلہ کشمیر بھی منسلک ہے،اسرائیل کو تسلیم کرنے اورتعلقات استوار کرنے کے ضمن میں نئی امریکی انتظامیہ پاکستان پرکیا دباﺅ ڈالتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔عرب دنیا میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ استوار ہو رہے ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب اور دیگر ریاستوں کے عرب عوام بھی اپنے حکمرانوں کی اسرائیل سے دوستی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، اور شاید اسی ردعمل کے تدارک کےلئے پاکستان جیسے ایٹمی اسلامی ملک کو ساتھ ملانے کی کوشش ہورہی ہے، تاکہ عوام کو مطمئن کیا جا سکے ‘ اس طرح بھار ت بھی نئے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے چاہے وہ مشرق وسطیٰ کے حالات ہیں یا جنوبی ایشیاءکے اور اس میں امریکہ کی حمایت بھی شامل ہے، جو چین اور پاکستان کے تعلقات سے ناراض ہے اس طرح ہمارے خطے میں اب امریکہ، عرب ممالک اور بھارت کے ساتھ مل کر نیا اتحاد بنا رہا ہے ، اس طرح افغانستان میں بھارت کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی شروع کرادی گئی ہے اور ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام کے باعث بھارت کو آسانی ہو رہی ہے‘ ہمارا المیہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت ابھی تک اپنے محدود سیاسی مفادات سے باہر نہیں نکل پا رہی‘ غلط وقت میں احتجاجی تحریک اور حکومت سے عدم تعاون کی پالیسی غیر سنجیدہ عوامل ہیں ‘دوسری طرف بھارت نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ لائن آف کنٹرول کے اس طرف شہری آبادی پر ریاستی جبر اور گولہ باری کر رہا ہے‘ پاکستان کے اندر مداخلت اور دہشت گردی کے واضح ثبوت دکھانے کے باوجود اگر دنیا بھارت کا ساتھ دے رہی ہے تو اس میں بھارت کی چالاکی سے زیادہ وہ عالمی ایجنڈا کارفرما ہے، جس میں پاکستان اور مسلمان نشانہ ہیں‘ اس وقت ہمارے پاس چین کے علاوہ کوئی دوسری چوائس نہیں ہے۔ اور چین میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہمارے معاشی اور عسکری مسائل حل اور ممکنہ نقصانات کا مداوہ کر سکے‘ حال ہی میں سعودی عرب کو جو ایک ارب ڈالر واپس کیے گئے، وہ چین نے ہی فراہم کیے تھے‘ سی پیک کے منصوبوں میں بھی عرب ممالک سے نکالے جانے والے مزدور کھپ سکتے ہیں۔ امریکہ کی وجہ سے چین کے گروپ میں روس اور ایران بھی شامل ہیں اور پاکستان کو مرکزی حیثیت اہمیت حاصل ہو سکتی ہے۔