کچھ معاملات سیاست سے الگ رکھے جائیں

 یہ صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے کہ سیاست کے مفادات، ریاست کے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں، بالخصوص اپوزیشن ہر دور میں، ہر حکومت کو ایسے فیصلے کرنے سے روکے رکھتی ہے، جن کے باعث معیشت پر بوجھ بڑھتا ہے۔ اب پی آئی اے، پاکستان سٹیل اور ریلوے جیسے مستحکم ادارے گزشتہ تین دہائیوں سے خسارے میں ہیں۔ یہ ہر سال 40 ارب سے زائد کھا رہے ہیں، ان کو بحال کر کے نفع بخش بنانے کی ہر کوشش مزید خسارہ دے کر ناکام رہی ہے۔ ہر حکومت نے صرف اپوزیشن کے ردعمل سے بچنے کے لیے، ان کی نجکاری یا غیر ضروری ملازمین کو نکالنے جیسا فیصلہ نہیں کیا، سب سے برا حال پاکستان سٹیل کا ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے ورکروں کو ہزاروں کی تعداد میں بھرتی کیا، ان چہیتوں نے خود کام کیا، نہ ہی کام کرنے والے ہنرمندوں کو کرنے دیا۔ یونین بازی اور حقوق کے مطالبات نے فرائض ادا کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ سیاسی طور پر اعلیٰ انتظامیہ بھی جب اہلیت کی بجائے تعلق کی بنیاد پر بٹھائی جائے تو پھر ادارے تباہی کی طرف ہی جاتے ہیں، اور اس کی مثال پاکستان میں ہی مل سکتی ہے۔ تیس سال پہلے نجکاری کو صنعتی ترقی کےلئے ناگزیر قرار دیا گیا اور اس کی آڑ میں منافع کمانے والے کئی ادارے فروخت کر دئیے گئے، جن میں پی ٹی سی ایل سرفہرست ہے، جبکہ خسارے میں چلنے والے ادارے خریدنے کو کوئی تیار نہیں ہوا، اس کی وجہ غیر ضروری ملازمین کا بوجھ ہے، جن کی اکثریت غیر تربیت یافتہ ہے، اس بوجھ کے ساتھ کوئی بھی یہ ادارے لینے کو تیار نہیں۔ موجودہ حکومت نے پی آئی اے کو بحال کرنے کے لئے منیجمنٹ تبدیل کی اور جعلی ڈگری والے سینکڑوں ملازمین کی نشاندہی کی گئی، ان میں پائلٹ بھی شامل ہیں، اس کے باوجود فی جہاز ملازمین کی اوسط تعداد ہزاروں میں ہے۔ اب ملازمین کو ”گولڈن ہینڈ شیک“ سکیم کی طرز پر پیشکش کی جا رہی ہے کہ وہ یک مشت مناسب پیسے لے کر فارغ ہو جائیں، جبکہ ایسی ہی سکیم کے تحت پاکستان سٹیل سے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہ ملازمین جونیئر افسران، اسسٹنٹ مینیجرز، ڈپٹی مینیجرز، مینیجرز، اور دوسرے دفتری ملازمین ہیں، جبکہ اساتذہ، میڈیکل سٹاف، چوکیدار اور کم گریڈ کے ملازمین نہیں نکالے گئے، اس موقع پر اپوزیشن کے لیے یہ ایک گرم موضوع ضرور ہے لیکن یہ بات اپوزیشن بھی مانتی ہے کہ گزشتہ 20 سال سے یہ لوگ ایک پیسے کا کام نہیں کر رہے تھے، ہر ماہ اربوں روپے قومی خزانے سے تنخواہ ادا کی جاتی تھی، کئی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومت نے اربوں روپے دئیے کہ مِل کی پیداوار شروع ہو سکے، لیکن وہ امداد بھی ڈوب گئی، اس وقت حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کےلئے فنڈ کی کمی کا سامنا ہے، ایک پے اینڈ پینشن کمیشن قائم کیا گیا ہے، جو اس بوجھ کو کم کرنے کی تجاویز دے گا۔ ان حالات میں کوئی کام نہ کرنے اور اداروں کو ڈبونے والوں کو وظیفہ دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا، کہنے کو تو یہ آسان ہے کہ حکومت کا کام لوگوں کو روزگار دینا ہے، اور دنیا کی فلاحی ریاستیں ایسا کرتی ہیں، لیکن پاکستان کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ وہ ایسا کر سکے، جہاں مراعات یافتہ طبقہ ٹیکس دینے کو تیار نہ ہو، اور سیلز ٹیکس کی صورت میں عام آدمی سے ٹیکس لے کر نظام چلایا جاتا ہوں، جہاں سیاست اور حکمرانی کے ساتھ کاروبار ضروری سمجھا جاتا ہو اور حکمران ہی بینکوں سے قرض لے کر خود ہی معاف کرواتے رہیں، جہاں سیاسی جماعتیں ٹریڈ یونین کے نام پر ہر ادارے میں ایسے ورکروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں، جو فرائض ادا کرنے کے بجائے صرف حقوق کی بات کریں، جہاں کام کرنے کو توہین سمجھا جاتا ہو، اور کام چوری کو ایک فن مانا جاتا ہوں، ایسے ملک میں جب تک سیاسی اشرافیہ تلخ حقائق کو قبول کر کے اور حقیقت پسندانہ فیصلے کر کے کام کرنے کا ماحول نہیں بنائے گی، ادارے بوجھ ہی بنے رہیں گے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ اپوزیشن سیاست سے بلند ہوکر فیصلے کرے، سیاست میں چند سال کوئی مدت نہیں ہوتی، 2000 سے اب تک کم از کم یہ روایت تو شروع ہوئی ہے کہ الیکشن جیتنے والی سیاسی جماعت اپنی مدت پوری کرتی آئی ہے۔ 2002 میں ق لیگ، 2008 میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ ن نے الیکشن جیتا اور اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ یہ الگ بات ہے کہ وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہے، لیکن حکومت ایک ہی پارٹی کی رہی اور اگر تحریک انصاف اپنی مدت پوری کرتی ہے تو یہ ایک مثبت سیاسی عمل ہو گا 2023 میں عوام خود ہی فیصلہ کر لیں گے کہ کون ملک بہتر چلانے کا اہل ہے، اس لیے کچھ فیصلے ایسے ہیں جن کو ریاست کے مفاد کےلئے کرنا ضروری ہے‘ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری سے کام کرنے کا رجحان بڑھے گا، جب کام نہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ ہوگی تو ماحول تبدیل ہوگا۔ نجکاری کمیشن 25 سال پہلے قائم ہوا تھا، اس کے ذریعہ ہر حکومت نے چھوٹے موٹے ادارے فروخت کیے، لیکن سیاسی مصلحت نے بڑے بوجھ کم کرنے کی راہ روکے رکھی، یہ فیصلے کرنے ضروری ہیں۔ جتنا جلدی ہو سکے خزانے کو لگی دیمک سے نجات حاصل کی جائے اور بے روزگار ہونے والوں کو معقول معاوضہ دیا جائے تاکہ وہ خود روزگاری کی طرف آ سکیں اور کچھ کرنے پر راغب ہوں۔