بڑے عہدے کے تقاضے

کسی بھی جمہوری ملک میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے۔وزیر اعظم کے اختیارات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ انہیں ہم لا محدود تو نہیں کہہ سکتے مگر اس کے باوجود وزیر اعظم چونکہ چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اس لئے اس کے اختیارا ت قدرتی طور پر اتنے ہونے چاہئیں کہ وہ ملکی معاملات کے فیصلے کر سکے۔اس میں بھی شک نہیںکہ پارلیمانی نظام میں فیصلوں کو پارلیمان سے جوڑا گیا ہے مگر اس کے باوجو بہت کچھ وہ اپنی صوابدید پر بھی کر سکتا ہے۔ جو کچھ بھی ایک وزیر اعظم اپنے دور حکومت میں اپنی صوابدید پر کرتا ہے اگر وہ ملکی مفادکے خلاف نہیں ہیں تو اُس کی پرسش ضرور ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسا مکینزم موجود ہو کہ صوابدیدی اختیارات کے کاموں میں بھی ایک چیک اینڈ بلینس موجود ہو، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے نظام کی عدم موجودگی میں پھر سابقہ وزرائے اعظم تنقید اور کئی صورتوں میں عدالتی چارہ جوئی کا نشانہ بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں جمہوری ادارے جن جن ممالک میں کام کرتے ہیں وہاں پر یہ صورتحال کیوں نہیں بنتی جس کاسامنا ہمارے ہاں اکثر حالتوں میں ہوتا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی عہدے دار کو جواب دہ ہونا چاہئے مگر اس ضمن میں کچھ قواعد و ضوابط تشکیل دئیے جائیں تو بہتر ہے کیونکہ اس میں شخصیت کی بات نہیںبات عہدے کی ہے۔ اسلئے کہ آج اگر ایک وزیراعظم کو جیل سے عدالت لا جا رہا ہے تو کل کو موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا سکتا ہے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کسی کااحتساب نہ ہو بلکہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات کے احتساب اور ان کے پوچھ گچھ کاایک مناب طریقہ کار ہو۔یہ جمہوریت ہے اور اس میں کوئی بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس عہدے کا لحاظ ہونا چاہئے نہ کہ بندے کا۔دیکھنے میں یہ منظر عجیب سا لگتا ہے کہ کل تک جو آدمی پورے ملک اورقوم کےلئے فیصلے صادر کر رہا تھا آج اُس کو مجرم کے طور پر عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر اس سے کوئی کوتاہی ہوئی بھی ہے تو اس کے مداوے کےلئے اور بھی بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں دیکھا جائے توایک وزیر اعظم در اصل کوئی آزاد شخص نہیںہوتا اور نہ وہ اپنے آپ سے کوئی فیصلہ کر سکتا ہے ۔ اس کےلئے فیصلے کرنے والے کوئی اور لوگ ہوتے ہیں بہت سے کام متعلقہ وزارتوں کے سینئر حکام کے مشوروں ، تجاویز یا منظوری کے بغیر نہیں ہوتے۔ پارٹیاں تو نام کی اقتدار کا حصہ ہوتی ہیں جب کہ فیصلے کرنے والے مستقل لوگ ہوتے ہیں۔ ملک میں جو بھی شخص وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچتا ہے اُس کے پیچھے پورا ملک کھڑا ہوتا ہے۔اُس کے دورمیں جو بھی فیصلے ملکی سطح پر ہوتے ہیں وہ پوری پارٹی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس کےلئے کوئی ایک دماغ کام نہیں کر رہا ہوتا۔ہر فیصلہ مشاورت سے ہوتا ہے اور اس کو کسی ایک شخص سے منسوب کرنا اور پھر اُس کی مخالفت میں اُس منصوبے کو ہی روک دینا کہ جو جاری تھا ۔ہمارے ہاں چونکہ کوئی بھی منصوبہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اُسی حکومت کے دورا ن مکمل ہو گیا ہو اور جو بھی منصوبہ شروع ہوتا ہے اُسکی تکمیل تک حکو مت تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور اُس پر جو خرچ ہو چکا ہوتا ہے وہ بے کار جا تا ہے مگر اُس کےلئے لیا گیا ادھار تو ملک کے سر چڑھ جاتا ہے۔ اس لئے ان منصوبوں کی تکمیل ضروری ہوتی ہے تاکہ قومی خزانے نقصان نہ ہو۔ اس تمام تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ احتساب کا ایک ایسا نظام موجود ہو جو خود بخود ہوتا رہے اور بڑے عہدوں پرفائز شخصیات کی جوابدہی اور عہدے کے استحقاق دونوں کے درمیان توازن برقرار ہو۔