اسلام آباد:وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ داخلہ اور خارجہ امور میں تمام پالیسی تحریک انصاف کی ہے اور فوج کا مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔
مجھے سلیکٹڈ کہنے والے رہنما خود سلیکٹڈ ہیں،بلاول بھٹو پرچی کی وجہ سے پارٹی میں آئے ہیں۔
اعداد و شمار کو دیکھیں تو 2018 کے انتخابات 2013 کے مقابلے میں زیادہ شفاف تھے، نیب سمیت تمام ادارے آزاد ہیں،ان پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں،ہمارا اختیار صرف جیلوں پر ہے۔
آصف علی زرداری اور نواز شریف نے اپنے اپنے دور اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف کیسز بنائے، میرا نظریہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے،اسی مقصد کیلئے ایک طریقہ ناکام ہوگا تو دوسرا اختیار کروں گا
نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویومیں عمران خان نے کہا کہ ہم نے تمام ریاستی اداروں بشمول نیب کو آزاد چھوڑ رکھا ہے اور ان پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب نیب اپوزیشن کے کسی رہنما کے خلاف کوئی انکوائری کرتی ہے تو وہ چیختے ہیں کہ سیاسی انتقام لیا جارہا ہے تاہم یہ ہی لوگ اس وقت خاموش رہتے ہیں جب نیب حکومت میں شامل کسی فرد پر انکوائری کا حکم دے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے خلاف جتنے کیسز ہیں وہ ہماری حکومت نے دائرے نہیں کیے بلکہ تمام کیسز سابق حکومتوں کے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آصف علی زرداری اور نواز شریف نے اپنے اپنے دور اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف کیسز بنائے۔
عمران خان نے کہا کہ جو لوگ پیسے لے کر تنقید کرتے ہیں وہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوجاتے ہیں،صحیح معنوں میں تجزیہ کرنے کی اہلیت رکھنے والے اور پڑھے لکھے صحافی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مجھے سلیکٹڈ کہنے والے رہنما خود سلیکٹڈ ہیں۔ نوازشریف اور آصف زرداری دونوں سلیکٹڈ تھے،بلاول بھٹو پرچی کی وجہ سے پارٹی میں آئے ہیں۔
اعداد و شمار کو دیکھیں تو 2018 کے انتخابات 2013 کے مقابلے میں زیادہ شفاف تھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ فوج کا دباؤ ہو تو مزاحمت بھی کروں، خارجہ پالیسی کے فیصلے میں کرتا ہوں،جو باتیں میرے منشور میں تھیں میں نے اس پر عمل درآمد کیا، افغانستان کے معاملے میں جو میرا موقف تھا آج وہی پاکستان کی پالیسی ہے۔
چیئرمین سی پیک عاصم باجوہ کے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ان کو سی پیک کی ذمے داری دینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سدرن کمانڈ کے کمانڈر رہے تھے اور سیکیورٹی ایشوز پر کام کرچکے تھے اس لیے ہمارا خیال تھا کہ وہ اس ذمے داری کے لیے بہترین آدمی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس نے بھی اپنی زندگی میں مقابلہ کیا ہو وہ یوٹرن کا مطلب سمجھتا ہے،حالات کے ساتھ ساتھ حکمت عملی تبدیل کی جاتی ہے،میرا نظریہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے اور میں اسی مقصد کے لیے ایک طریقہ ناکام ہوگا تو دوسرا اختیار کروں گا۔
عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کا پہلے دن سے ایجنڈا ایک ہی تھا۔ ہم تو پہلے دن الیکشن پر تحقیقات کے لیے آمادہ تھے لیکن یہ اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں آئے تک نہیں، پھر فیٹیف کے لیے ہونے والی قانو ن سازی میں 34 ترامیم کا مطالبہ کیا جس کا مقصد نیب ختم کرنا تھا،جب ہم کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دیتے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ احتساب کے ان قوانین میں تبدیلی نہیں کرنے دیں گے۔ نہ صرف نیب بلکہ ایف آئی اے اور دیگر اداروں میں جو تحقیقات چل رہی ہیں ہم چاہتے ہیں وہ تکمیل تک پہنچیں۔
جہانگیر خان ترین سے متعلق سوال پر وزیر اعظم نے کہاکہ ان سے دس سال پرانا تعلق ہے کیس کا افسوس ہوتا ہے تاہم ان کے خلاف کارروائی ہورہی ہے اور جہانگیر ترین کے ساتھ شہباز شریف پر بھی ایف آئی آر ہوچکی ہے، مسابقتی کمیشن اور ایف آئی اے میں بھی تحقیقات ہورہی ہیں، چینی کے کارٹیل پر اس طرح پہلی بار کام کیا گیا،ہم تو قانون کے مطابق چل رہے ہیں،اس معاملے میں ہمارے لوگ بھی ہیں اور دوسرے بھی۔
اس سوال پر کہ کیا جہانگیر ترین اب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جہانگیر ترین کے پاس تحریک انصاف کا کوئی عہدہ نہیں ہے جس پر بھی تحقیقات شروع ہوئی ہیں ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھی شوگر مافیا تھا تاہم کبھی ان کے خلاف تحقیقات نہیں ہوئیں۔ پاکستان کے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے بڑے طاقت ور لوگ چینی کی قیمت کا تعین کرتے تھے لیکن ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا۔ ہم نے پہلی بار یہ کام کیا۔
فردوس عاشق اعوان سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ معاون خصوصی اطلاعات پنجاب پر کوئی کرپشن کیس نہیں،محکمہ اطلاعات میں کچھ مسائل تھے اور ہمارے ایک دو لوگوں کو ان سے مسئلہ تھا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ کیا گیا تھا۔