خطاطی کی گمشدہ داستان

بلتستان کی وادی¿ شگر میں ساڑھے چھ سو سال پرانی ایک مختصر مسجد ہے‘ وہاں ایک کونے میں ایک پھٹی پرانی بوری پڑی تھی جس میں قرآن پاک اور کچھ مذہبی کتابوں کے منتشر اوراق موجود تھے مجھے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ تقریباً ہر گھر میں قرآن پاک کے قلمی نسخے ہوا کرتے تھے‘ پرنٹنگ پریس میں شائع شدہ قرآن پاک کی آمد سے یہ بوسیدہ ہو چکے نسخے کارآمد نہ رہے اور لوگ انہیں یہاں مسجد میں جمع کروا جاتے تھے‘ ہر ماہ ہم ان اوراق کو دریائے برالڈو کے سپرد کردیتے ہیں‘ میں نے ان سے درخواست کی کہ ان میں سے کچھ پرانے اوراق مجھے عنایت کردیں تو وہ کہنے لگے آپ بے شک پوری بوری لے جایئے‘ بہرطور میں ان میں سے کچھ اوراق اپنے ہمراہ لے آیا اور یہ خطاطی کا ایک انمول خزانہ تھا جس میں مختلف رسم الخط نہایت خوش خطی سے اپنے آپ کو نمایاں کرتے تھے‘ ان زمانوں میں چونکہ قرآن پاک ہاتھ سے لکھے جاتے تھے اس لئے خطاط حضرات کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا...پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے فن خطاطی کو گہنا دیا اور یہ فن چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گیا‘ لاہور کے فقیرخانہ میوزیم میں تاج محل پر نقاشی کرنیوالے خطاط کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے قرآنی اوراق موجود ہیں‘ اس کے ایک پرانے مہتمم کا کہنا ہے کہ وہ ایک زمانے میں صبح سویرے دریائے راوی کے کنارے جایا کرتے تھے جہاں کئی بار ایسے لوگ آتے تھے جو اپنے خاندانی نسخوں کے پھٹے پرانے اوراق کو دریا برد کرنا چاہتے اور یہ مہتمم ان سے درخواست کرکے یہ اوراق حاصل کرلیتے تھے‘ تاج محل کے خطاط کے لکھے ہوئے اوراق بھی راوی کنارے حاصل ہوئے... میں نے دنیا بھر کے عجائب گھروں میںقرآن پاک کے جونادر قلمی نسخے نمائش پر دیکھے ہیں ان کا تذکرہ پھر سہی...ظاہر ہے کہ خطاطی کا فن ہمارے ہاں ایران توران اور عرب سے آیا...وہاں اب بھی یہ روایت بے حد توانا ہے‘ خاص طورپر ایران میں جہاں حکومتی سطح پرنہ صرف اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ یہ نصاب میں بھی شامل ہے‘ عراق‘ شام اور مصر کے خطاط بھی دنیا بھر میں مانے جاتے ہیں‘ سلطنت عثمانیہ کے دور میں خطاطی کو بھی بے حد عروج نصیب ہوا‘ مسجد نبوی کے ترک حصے کے فانوسوں اور دیواروں پر بھی ترک خطاطوں کے کمال فن کے نادر نمونے ہیں جن کی دل کشی میں کچھ شبہ نہیں...خطاطی ترک ثقافت کا اتنا اہم حصہ رہی ہے کہ نوبل انعام یافتہ ترک ادیب ارہان پاموک کا ناول” مائی نیم از ریڈ“ کی بنیاد ہی خطاطی اور مصوری کا فن ہے اور یہ ایک ایسا ناول ہے جس کی تخلیقی قوت کے باعث پاموک کو نوبل انعام سے نوازا گیا...اسی ناول میں درج ہے کہ ان زمانوں کے خطاط اور مصور آخری عمر میں اندھے ہو جاتے تھے وہ جو دیدہ ریزی تھی دن رات کاغذ پر جھکے ہوئے سانس روکے ہوئے موم بتی یا دیئے کی ناکافی روشنی میں بالآخر دید سے تاریک کر دیتی تھی...اگر آج میں آپکو خطاطی کے بازار میںلے آیا ہوں اس کے تخلیقی جہان کو اپنے محدود علم سے بیان کر رہا ہوں تو اس کا سبب کچھ نہ کچھ تو ہے...اور اس کا سبب ایک گوہر ہے جو میری میز پر ایک کوہ نور کی مانند دمکتا ہے‘ اس کی آب و تاب پر نظر نہیںٹھہرتی اور یہ گوہر قلم ہے...آفتاب جہاں ہے خورشید عالم ہے...مختصراً یہ کہ میرے سامنے خورشید عالم گوہر قلم کی خطاطیوں کا ایک مجموعہ ہے...بس گوہر کی خطاطی دیکھ کر ہی مجھے خطاطی کا بازار یاد آیا کہ وہ کمال فن کی منزلیں طے کرکے ستاروں سے آگے جو جہان ہیں ادھر کا مسافر ہوگیا ہے...میں کیسے اس کے ہنر اور یکتائی کو بیان کر سکتا ہوں کہ میں بے ہنر ہوں‘ کوئی ہنر والا ہی اسے پرکھے اور داد دے...بس میں تو اتنا ہی کہہ سکتا ہوں جیسے مرشد رخصت ہوتے ہوئے اپنے کسی مرید کے سر پراپنی دستار فضلیت باندھ کر اپنا جانشین مقرر کرجاتے ہیں ایسے حافظ یوسف سدیدی اپنا قلم‘ خورشید عالم کے سپرد کرگئے ہیں کہ میں ان کے خط میں حافظ صاحب کے کمال فن کی جھلکیاں دیکھ سکتا ہوں اوریہ گوہر قدرے گمنام رہتا گوہر قلم نے جہاں کلاسیکی خطاطی کے جواہر پارے تخلیق کئے ہیں وہاں انہوں نے مصور خطاطی کے کچھ نمونے بھی پیش کئے ہیں بلکہ ایک خطاطی کے بارے میں درج ہے کہ یہ پکا سو کے سٹائل میں ہے‘ اسی طور متعدد نمونوں میں صادقین کا رنگ بھی بہت نمایاں ہے بلکہ ان کی خطاطی کا سٹائل بھی نظرآتا ہے...گوہر قلم کو پکا سو کی مانند ان کے فن کا اعتراف بھی کرنا چاہئے تھا...اسی طور اگر وہ غالب‘ فیض‘ وارث شاہ یا شاہ بھٹائی کے کلام کو بھی خط کرتے تو وہ اپنی دھرتی کی نمائندگی بھی کرتے...اگر حافظ شیرازی کا کلام لکھا گیا ہے تو وہ ایک پنجابی ہونے کے ناتے شاہ حسین اوربلھے شاہ کو بھی اپنے فن سے نکھار سکتے تھے...شنید ہے کہ انہوں نے خطاطی کا ایک ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فن کو اگلی نسل میں منتقل کرینگے‘ شاگردوں سے جوتیاں سیدھی نہیں کروائیں گے اور نہ ہی ان سے بازار سے پکوڑے منگوائیں گے... عبدالرحمن چغتائی جن کی تصویریں ان زمانوں میں بھی لاکھوں میں فروخت ہوتی تھیں اور معاوضے کے بغیر ایک لکیر بھی نہیں لگاتے تھے‘ کسی بھی کتاب کا سرورق بنانے سے انکار نہ کرتے تھے اور مصنف سے ایک پیسہ بھی نہ لیتے تھے...وہ کہتے تھے یہ میرے فن کی زکواة ہے...” نکلے تری تلاش میں“ کے پہلے ایڈیشن کا سرورق انہوں نے تخلیق کیا اور مفت عطا کیا.. . صادقین کا بھی یہی وطیرہ تھا...سوال یہ ہے کیا گوہر قلم اور دیگر استاد خطاط بھی کبھی اپنے فن کی زکواة دیتے ہیں...نہیں دیں گے تو گناہ ہوگا۔