سپریم کورٹ نے حکومت کے 10بلین ٹری سونامی منصوبے کے معاملہ پر نوٹس لیتے ہوئے تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے دریاؤں اور نہروں کے کناروں پر شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے 10بلین ٹری سونامی منصوبے کے معاملہ پر نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو طلب کرلیا، عدالت نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو حکم دیا کہ 10 بلین منصوبہ کا سارا ریکارڈ بھی ساتھ لایا جائے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اسلام آباد انتظامیہ کے نمائندے سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد انتظامیہ بڑی مغرور ہے، اسلام آباد میں پانچ لاکھ درخت کہاں لگائے ہیں؟ آپ نے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگائے ہوں گے، اسلام آباد میں درخت کٹ رہے ہیں، کشمیر ہائی وے پر ٹیڑھے میڑے درخت لگے ہیں، درخت خوبصورتی کے بجائے بدصورتی پیدا کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کے سیکرٹری ماحولیات کی بھی سرزنش کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خیبر پختونخوا کا محکمہ ماحولیات چور اور آپ اس کے سربراہ ہیں، آپ کو تو سیدھا جیل بھیج دینا چاہیے، ناران کاغان کچرا بن چکا، جھیل کے اطراف کوئی درخت نہیں، کمراٹ میں ہزاروں درخت کاٹے جا رہے ہیں ، درخت کٹتے ہوئے خود دیکھ کر آیا ہوں، نتھیا گلی میں درخت کٹ رہے ہیں اور پشاور میں تو موجود ہی نہیں، کسی کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
سندھ حکومت کی طرف سے رپورٹ نہ آنے پر عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا جھیلوں اور شاہراؤں کے اطراف بھی درخت لگائے جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت کے معاملات سمجھ سے بالاتر ہیں ،سندھ واحد صوبہ ہے جس کے معاملات کچھ اور ہی طرح چلتے ہیں، سندھ سے جتنے بھی افسران آئے ہیں کسی کو ٹی اے ڈی اے نہیں ملے گا، عدالتی حکم عدولی پر سندھ کے افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں گے، توہین عدالت کا نوٹس ملا تو ساری جمع پونجی ختم ہوجائے گی، افسران جیل بھی جائیں گے اور نوکری سے بھی۔