گلگت:وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوا م کے احساس محرومی کے خاتمے کیلئے سب سے پہلے گلگت بلتستان کی صوبائی حیثیت پر کام کریں گے۔
ایسی حکومت لائیں گے جو نئی روایت قائم کریگی ۔ نواز شریف اور زرداری کو 30 سال سے جانتا ہوں، اللہ کا ان پر عذاب نازل ہوتے دیکھا ہے، یہ جھوٹ بول کر کبھی لندن اورکبھی دبئی جاتے ہیں ۔
کورونا سے لوگ مر رہے ہیں اور اپوزیشن چوری بچانے کے لیے جلسے کرر ہی ہے۔ اسحاق ڈار کا انٹرویو جھوٹ کا پلندہ، گفتگو میں شکل دیکھنے والی تھی۔
گلگت بلتستان کی نو منتخب کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گلگت میں ایسی حکومت آئیگی جو نئے اسٹینڈرڈ قائم کرے گی، آپ کا علاقہ جانتا ہوں اور مسائل سے آگاہ ہوں۔
سب سے پہلے گلگت بلتستان کی صوبائی حیثیت پر کام کریں گے، احساس پروگرام گلگت بلتستان لے کر آرہے ہیں، یہاں کے لوگوں کے لیے ہیلتھ انشورنس لے کر آرہے ہیں جس سے 10 لاکھ روپے تک لوگ کسی بھی ہسپتال میں فری علاج کراسکیں گے۔
وزیراعظم کا کہنا تھاکہ گلگت بلتستان کی ٹورازم پر پوری توجہ دی جائے گی، بدقسمتی سے کورونا کی وجہ سے زیادہ سیاح نہیں آسکے، لوگوں کو اپنے گھروں کیساتھ گیسٹ روم بنانے کے لیے سستے قرضے فراہم کریں گے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ گزشتہ ہفتے آسٹریا کی ایک بڑی کمپنی کے وفد سے ملاقات ہوئی، اسکردو میں 250 بیڈ کے ہسپتال پر کام جاری ہے جو مکمل کیا جائے گا۔
گلگت بلتستان کے لیے 300 میگاواٹ بجلی پیداوار کے منصوبے بنا رہے ہیں جب کہ ہائیڈرو الیکٹرک پاور کے ساتھ اسپیشل اکنامک زون بنایا جائے گا، یہ علاقہ سی پیک کے راستے میں ہے، اس لیے یہاں پہلااسپیشل اکنامک زون بنائیں گے۔
وزیراعظم نے سابق صدر اور سابق وزیراعظم کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ لیڈرمیں دو خصوصیت صادق اور امین ہونا بہت ضروری ہے، حرام کا پیسااللہ کی لعنت ہے، نواز شریف اور زرداری کو 30 سال سے جانتا ہوں، اللہ کا ان پر عذاب نازل ہوتے دیکھا ہے، یہ جھوٹ بول کر کبھی لندن اورکبھی دبئی جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا سے لوگ مر رہے ہیں اور اپوزیشن چوری بچانے کے لیے جلسے کرر ہی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ذہنی دباؤ انسان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، ذہنی دباؤ دیکھنا ہے تو کل اسحاق ڈار کی برطانوی میڈیا کو دئے گئے انٹرویو میں شکل دیکھ لیتے وہ جھوٹ پر جھوٹ بول رہے تھے اور سب ایسا لگ رہا تھا دل کا مسئلہ نہیں بھی ہے تو ہارٹ اٹیک آ جانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں وہ وزیراعظم ہوں جس نے اس علاقے کو اس طرح دیکھا ہے جیسا کسی اور نے نہیں دیکھا، 15 سال کی عمر میں یہاں آیا تھا جب قراقرم ہائی وے بھی نہیں بنی تھی، جس کے بعد میں کرکٹ کھیلنے کے بعد یہاں آیا۔
عمران خان نے کہا کہ میں اس علاقے کو جانتا ہوں اور اب ہم اسے جس رخ پر ڈالیں گے، اس سے یہاں کے عوام کی زندگی بدل جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب سے پہلے عبوری صوبائی حیثیت پر کام کریں گے تاکہ جو اب تک احساس محرومی رہی ہے وہ ختم ہو جائے۔
عمران خان نے کہا کہ میں جب یہاں آتا تھا تو نوجوان کہتے تھے کہ کیا ہم پاکستانی ہیں اور اسی احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے ہم عبوری صوبائی حیثیت پر کام کریں گے اور ایک کمیٹی بنائیں گے جو ایک ٹائم لائن پر کام کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کامیاب سسٹم میں لوگوں کے پاس اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور کوئی باہر سے آ کر انہیں بتا نہیں سکتا، آپ لوگوں کو بہتر پتہ ہے کہ آپ کو کس طرح کی ترقی چاہیے، ہم اسلام آباد سے آ پ کونہیں بتا سکتے کہ پراجیکٹ اے بنایا جائے پراجیکٹ بی بنایا جائے، یہ آپ فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جب مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں تو اس میں سب سے اہم چیز انہوں نے ترجیح یہ دی کہ کیسے کمزور طبقے کو اوپر اٹھانا ہے، جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں انہیں اوپر کیسے لایا جائے۔