حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جنگ میں عوام پس رہے ہیں، اپوزیشن کے احتجاجی تحریک کا کوئی مقصد ہے، نہ ہی حکومت کے رد عمل کا کوئی جواز، جس طرح پشاور میں خواری کے بعد بھی جلسہ نہیں رک سکا تھا، اس کے بعد ملتان میں فری ہینڈ دے دیا جاتا تو عوام کی شرکت میں دلچسپی بھی کم ہوجاتی۔جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ مسلم لیگ نون کی عملی سربراہ مریم نواز اپنی دادی کی تعزیت چھوڑ کر جلسے میں آئیں اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی چھوٹی بہن ،آصفہ بھٹو نے پہلی بار کسی عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ بلاول خود کورونا کا شکار ہوکر قرنطینہ میں ہیں، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلزپارٹی نے بینظیر بھٹو کی جانشین آصفہ کو سامنے لانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ جلسہ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہو رہا تھا،دوسری طرف جماعت اسلامی اپنی سولو پرواز اور واحد اپوزیشن ہونے کا دعوی لے کر پی ٹی ایم کے متوازی کامیاب جلسے کرتی آرہی ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی حکومت کی اپیل اور کرونا کے خوف کو نظر انداز کیے رکھا، لیکن اب جماعت کے امیر سراج الحق نے 15 دن کےلئے جلسے موقوف کرنے کا اعلان کیا ہے، پندرہ دنوں کے بعد کورونا میں شاید کمی نہ آئے کیونکہ جس طرح وائرس دن بدن پھیل رہا ہے، اس کے آگے بند باندھنے کےلئے صرف جماعت اسلامی کا جلسے روکنا کافی نہیں ہے۔ اس سے صرف یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت کو عوام پر رحم آگیا ہے۔ اگر اس فیصلے سے پی ڈی ایم کی قیادت کو اچھا سوچنے کا موقع مل جائے اور وہ بھی فی الحال جلسوں کے پروگرام ملتوی کر دے تو اس سے اچھا تاثر پیدا ہو سکتا ہے، یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نصف درجن کامیاب جلسوں سے حکومت کمزور ہوئی ہے، نہ ہی وزیراعظم کے لہجے میں نرمی آئی ہے، اپوزیشن کے غیر ضروری بائیکاٹ کی وجہ سے پارلیمنٹ میں قانونی مشاورت ضروری آئین سازی کا کام رکا ہوا ہے جو سیاسی جماعتوں کا اصل کام ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر نہ صرف حکومت کو مشکل میں ڈالا جا سکتا ہے، بلکہ آرڈیننس کے ذریعے یکطرفہ قانون سازی کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے، جب کہ جلسوں کو ابھی تک حکومت نے کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ فاتحہ خوانی کےلئے مسلم لیگ ن کے سابق رہنما چودھری نثار علی خان بھی جاتی عمرہ گئے اور اطلاعات کے مطابق شہباز شریف سے کئی گھنٹے اکیلے ملاقات بھی کی ہے، چودھری نثار نے اس وقت نواز شریف سے بول چال بند کی تھی، جب وزیراعظم ہاو¿س میں مریم نواز نے اپنا الگ میڈیاسیل بناکر مہم شروع کی تھی‘ انتخابات میں چوہدری نثار نے ٹکٹ کے لئے درخواست نہیں دی، اور پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا۔ انہوں نے آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے الیکشن لڑا اور صرف صوبائی نشست جیت سکے، لیکن تادم تحریر انہوں نے صوبائی اسمبلی کے ممبر کا حلف نہیں اٹھایا۔ بعد میں کئی بار نواز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان ملاقات کرانے کی کوشش کی گئی، لیکن کامیابی نہیں ہوئی، حتیٰ کہ محترمہ کلثوم نواز کی وفات پر بھی چوہدری نثار تعزیت کےلئے نواز شریف کے پاس نہیں گئے، اب بھی شاید اس لیے جاتی عمرہ گئے کہ نواز شریف موجود نہیں اور شہباز شریف کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ اس ملاقات پر ابھی تک مریم نواز کا کوئی رد عمل نہیں آیا، لیکن ظاہر ہے جب تک پارٹی پر مریم کا اثر و رسوخ ہے، چودھری نثار کےلئے کوئی جگہ نہیں نکل سکتی، البتہ شہباز شریف کےلئے سرد مہری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے یہ ملاقات رسمی تعزیت سے کچھ زیادہ پس منظر رکھتی ہے اسلئے چوہدری نثارکا جاتی عمرا جانا صرف فاتحہ خوانی نہیں، بلکہ اس کے دور رس نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔پی ڈی ایم کی تحریک کا دارومدار نواز شریف کے نئے بیانیے پر ہے، اگر شہباز شریف کا دھڑا کھل کر اظہار لا تعلقی کرتا ہے تو اس سے اپوزیشن کی تحریک کو جھٹکا ضرور لگے گا۔ بہرحال یہ سیاست ہے اور اس میں دوست دشمن اور نظریہ و بیانیہ بدلتے دیر نہیں لگتی۔