ادھر یہ نامراد بیماری ہے کہ جس کا نہ سرہے اور نہ پیر یعنی کوئی خاص دوا اس کی معلوم نہیں ہو پائی۔ کچھ دن اس نے لوگوں کی جان چھوڑی مگر ایک دفعہ پھر آ گئی۔ اب لگتاہے کہ اس کا زور کچھ زیادہ ہی ہے۔ ادھر سیاست دان کافی دنوں سے اس بلا کی وجہ سے بے کار بیٹھے تھے مگر اب انہوں نے اپنے گلے صاف کر نے کا اہتمام کر لیا ہے۔ وہ ڈر جو کورونا نے شروع میں سیاست دانوں کے دل میں ڈالا تھا وہ اب نظر نہیں آتا۔ یہ تو سب کا معلوم ہے کہ یہ بلا اُس جگہ پر خصوصاً حملہ آور ہوتی ہے کہ جہاں چار آدمی اکٹھے ہوں۔اسی لئے سیاست دانوں نے جلسے جلوس موقوف کر دیئے تھے اس لئے کہ عوام کو جلسوں میں اکٹھا کرنے کا مطلب ہے کہ اُن کو کورونا کے منہ میں ڈال دیا جائے۔ اسی لئے سیاست دانوں نے بھی اور حکومت نے بھی جلسوں جلوسوں سے احتراز کو اپنایا ۔ جو عوام کی صحت کے لئے ضروری تھا۔ مگر یہ جو دو چار دن سیاست دانوں نے بغیر عوام سے چھیڑ چھاڑ کے گزارے خدا جانے کیسے گزارے۔ مگر اتنا صبر بہر حال مشکل تھا اس لئے سیاست دانوں نے خصوصا ً حزب اختلاف نے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی ٹھان لی اور ایک بڑا جلسہ کر ڈالا ۔ اس کے آفٹر ایفیکٹس کا انتظار ہے کہ جس طرح کورونا کو ایک بڑا اکٹھ ملا ہے اُس نے ان کے ساتھ کیا کیا کیاہو گا۔ اس پر اخبارات اور ریڈیو یوں تو خاموش ہیں مگر ہوا یہ ہے کہ بہت سے لوگ کورونا کا شکار بنے ہیں ۔ اب ایک اور جلسے کی تیاری بھی حزب اختلاف کر رہی ہے ۔ اور یہ لاہور میں ہونا ہے ۔ اب حکومت کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ جلسے کی اجازت نہ دے ۔مگر حزب اختلاف نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت اجازت دے یا نہ دے انہوں نے جلسہ کرنا ہی کرنا ہے۔ یہ حکومت کے ساتھ ضد کی بات ضرور ہے مگراصل مسئلہ عوام کا ہے ۔ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کےلئے عوام کو موت کے منہ میں نہ ہی دیں تو بہتر ہے۔ مسئلہ یہاں حزب اقتدار یا حزب اختلاف کا نہیں ہے اب مسئلہ عوام کا ہے ۔ عوام جہاں اکٹھے ہوں گے کورونا اپنے شکار کو دبوچنے میں ذرا بھی تامل نہیں کر ے گا۔ اور اس کا اثر سیاست دانوں پر پڑے نہ پڑے عوام کا ستیا ناس ہو جائے گا ۔ اس لئے ہمارے گزارش ہو گی کہ کم از کم جب تک اس بلا سے فرغت نہیں ملتی یہ جلسوں جلوسوںسے پر ہیز ہی کریں تو بہتر ہے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب تک سیاست دان عوام سے مخاطب نہ ہو جائیں ان کی زبان کی اُلی نہیں اترتی اور اُلی اتارنے کےلئے ان کو جلسوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے مگر جلسوں کےلئے مسئلہ کورونا بنا ہو ا ہے ۔ کچھ دوست اس کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں مگر درا صل یہ لوگ عوام کی جانوں سے کھیل رہے ہیں اس لئے کہ کورونا یہ نہیں دیکھتا کہ جلسہ حکومت کا ہے یا حزب اختلاف کا اُسے تو اکٹھ چاہئے جہاںاکٹھ ہو گااس نے اپنا کام کرنا ہے چاہے اکٹھ حکومت کی جانب سے ہو یا حزب مخالف کی جانب سے۔ اس لئے ہر شخص کو احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اور جب تک یہ بلا ختم نہ ہو جائے جلسوں جلوسوںسے پرہیز کرنا چاہئے۔حکومت کی ضد میں اگرکوئی گروہ جلسہ جلوس نکالتا ہے تو وہ حکومت کا تو کچھ نہیں بگاڑے گا البتہ عوام کا ستیاناس کر دے گا۔ اس لئے کہ کورونا سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خود کو بچایا جائے اور عوامی جگہوں پر اکٹھا نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا علاج چونکہ نہیں ہے اس لئے اس کا علاج صرف احتیاط ہے ۔ اگر آپ عوامی اکٹھ نہیں کریں گے اورخود کو جلسوں جلوسوںسے دور رکھیں گے تو انشا اللہ اس سے بچ سکیںگے ۔ بغیر ضرورت کے بازاروںمیں نہ جائیں۔ جہاں انسانوں کا اکٹھ ہو ایسے جگہوںسے بھی دور رہیں۔ اگر بہت ضروری ہو تو جہاں بھی جائیںماسک کا استعمال کریں یہی ایک طریقہ ہے کہ اس موذی مرض سے بچا جا سکتا ہے ورنہ اگر اجتماعات پر پابندی نہ لگائی گئی تو اس مرض سے چھٹکارہ ممکن نہیں ۔ یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے عوام میں آگاہی مہم بھی چلائی جائے اور اس پر عملدرآمد بھی کرائے۔ اگر کوئی اس سے انکارکرتا ہے تو اس کےلئے بھی قانون سازی کی جائے اس لئے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت بہر حال حکومت کی ذمہ داری ہے ۔