تعلیم و تحقیق

ہم مسلمان ہیں ۔ ہمارے مذہب میں ریسرچ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھو اور ان میں غور کرو۔ ہم نے اس کا مطلب یہ لے لیا ہے کہ ہم قدرت کی کسی بھی صناعی کو دیکھیں تو واہ سبحان اللہ کہ دیں۔ حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ اللہ کی پیدا کردہ اشیا پر غور کریں ۔ اور اس کی تہہ تک پہنچیں۔ یہ چیز کس طرح پیدا کی گئی ہے۔ اس کے اجزئے ترکیبی کیا ہیں۔ کیا ان اجزائے ترکیبی سے ہم کوئی نئی چیز بنا سکتے ہیں ۔ اور اگر بنا سکتے ہی تو کیا یہ ا نسانیت کے کام آ سکتی ہے ۔ اور اگر آ سکتی ہے تو اس کو مزید بہتر طریقے سے بنائیں تا کہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانیت کے کام آ سکے۔ ہمیں اشیا کی تہہ تک جانے اور کھوجنے کا حکم دیا گیا ہے جب مذہب یہ کہتا ہے کہ اللہ کی مخلوق پر غور کرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کی بناوٹ پر غور کرو اور ان میں پوشیدہ حکومت کے پہلوﺅں پر تدبر کرو غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ انسان نے جتنی ایجادات کی ہیں وہ مظاہر قدرت کو دیکھ کر کئے ہیں۔ پرندوں کو دیکھ کر جہاز بنائے گئے، سمندر پر تیرنے والے اور پانی کے نیچے تیرنے والی مخلوقات کا مطالعہ کرکے بحری جہاز اور آبدوز بنے اور حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی ترقی کے ابتدائی اہم ایجادات میں سے اکثر مسلمانوں کی ہیں کیونکہ ایک زمانے تک مسلمانوں نے غور کا مطلب سمجھا تھا اور نئی نئیتحقیقات کی تھیں اور نئے نئے نتائج حاصل کئے تھے۔ اگر ہم سائنسی لحاظ سے دیکھیں تو جن مسلمانوںنے اشیاءپر غور کرنے کا اصل مطلب سمجھا تھا انہوں نے ہزاروںنئی اشیا ءایجاد کر لی تھیں ۔ آج ہم یہ فخر تو کرتے ہیں کہ سائنس میں بہت سی ایجادات مسلمانوں کی ہیں مگر اس کے بعد ہم نے کیوں یہ کام مغرب پر چھوڑ دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مغرب پر تاریکی چھائی ہوئی تھی اور وہاں پر بہت سے سائنسدان ان کے مذہبی رہنماو¿ں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے یورپ نے بہت سے ایسے سائنسدانوں کو تہہ و تیغ کیا کہ جنہوں نے معاملے کی حقیقت کو ظاہر کیا۔ زمین کے سورج کے گرد چکر لگانے کا کہنے والے کئی سائنس دان مذہب کی بھینٹ چڑھے۔آج ہم سائنسی ترقی میں پیچھے رہ جانے کے باعث ہر چیز کیلئے دوسروں کے محتاج ہیں۔ اب جبکہ پوری دنیا پر وبا نے حملہ کیا ہے تو جو ویکسین سامنے آنے کی باتیں ہورہیں وہ سب یورپ، چین اور امریکہ اور روس کے ہیں، مسلمان ممالک وبا سے متاثر ہونے کے باوجود ا سکا توڑ تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ ہمیں اب اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے خود اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہوگا ۔