یونیورسٹی اساتذہ کی غریب پروری

جامعہ پشاور کے سینکڑوں درجہ چہارم عارضی ملازمین کی فریاد رسی اور داد رسی اللہ ہی کر سکتا ہے۔ یہ بیچارے کام کاج سے فارغ ہوتے ہوئے پانچ مہینے گزار گئے۔ ان میں ایسے غریب بھی شامل ہیںجو اپنے خاندان کا واحد ذریعہ معاش ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ گزشتہ ادوار کے اقتدار والے سیاسی بڑوں نے بھرتی کئے تھے نیز یہ کہ سرپلس تھے چلئے اس بات کو درست مانتے ہیں کہ سیاسی بڑوں نے بھرتی کئے تھے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو روزگار دینا کوئی ناجائز کام ہے؟ جہاں تک سرپلس ہونے کی بات ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ یہ تو جاکر یونیورسٹی میں دیکھئے کہ ان لوگوں کو فارغ کرنے سے یونیورسٹی میں کتنی آسامیاں خالی پڑی ہیں اور کتنے کام رکے ہوئے ہیں؟ پانچ مہینے سے تنخواہ نہ لینے اور سڑکوں پر خوار ہونے کی اذیت کا احساس محض اس شخص کو ہوسکتا ہے جس نے خود ناداری بیروزگاری اور فاقہ کشی دیکھی ہو۔ بعض سیانے کہتے ہیں کہ یہ موجودہ دور غرباءکوراس نہیں آیا۔
کورونا کی پہلی لہر میں حکومتی خیرات کے لئے دھکم پیل میں خوار ہونے والوں کی دوسری پریکٹس کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس بار بھی کئی کمزور عمر رسیدہ مساکین اللہ کو پیارے ہوجائیں اور کئی معذوری کے حوالے ہوں۔ یہ تماشا تو مستقبل قریب میں دیکھنے کا ہے البتہ اس وقت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کا غالباً اب نام بھی تبدیل کیاگیا ہے میں نادار معذور اور بیوہ خواتین جس کی اکثریت عمر رسیدہ اور بیمار ہوتی ہیں کی حالت زار دیدنی ہے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے غریب بیروزگاری محرومی اور فاقہ کشی یا کبھی کبھار خیرات خوری کیلئے پیدا ہوئے ہیں مگر وہ بھی نہایت اذیت کیساتھ۔ ایسے میں پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ نہایت ہی ستائش کے حقدار ہیں جنہوں نے شعبہ سوشل ورک کے کمیونٹی سروس پروگرام کے توسط سے غیر سرکاری تنظیموں کا تعاون حاصل کرتے ہوئے پیوٹا کے پلیٹ فارم سے کورونا کی پہلی لہر کے دوران جس طرح یونیورسٹی کے کلاس فور ناداروں اور بیروزگاروں کو خوردنی اشیاءکپڑوں اور جراثیم کش صابن کی امداد فراہم کی تھی اس بار پھر غریب ملازمین کی مدد کرنے جا رہے ہیں اس کے پہلے مرحلے میں گرم کپڑے کمبل اور سویٹر شامل ہیں جبکہ عنقریب دوسرے مرحلے میں فوڈ آئٹمز دئیے جائیں گے۔ یونیورسٹی اساتذہ اس لئے خراج تحسین کے حقدار ہیں کہ غرباءکیلئے اس امداد کے حصول میں بارہ ہزار کی حکومتی خیرات اور بینظیر انکم یا احساس کیش پروگرام کے دھکم پیل اذیت اور خوار ہونے کے برعکس نہایت منظم اور باوقار طریقے سے نادار ہموطنوں کا حق ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں قابل ذکر اور قابل ستائش امر یہ بھی ہے کہ اس امداد کے مستحقین میں یونیورسٹی کے بیروزگار ہونے والے تنخواہوں سے محروم اور عدالتی فیصلے کے منتظر درجہ چہارم کنٹریکٹ ملازمین شامل ہوں گے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ موجودہ دور ملک کے غرباءکو راس نہیں آیا تو یہ بھی کوئی بے پرکھی نہیں بلکہ مشاہدے کیلئے دیدہ ور چاہئے۔ آج کچھ ہی عرصہ قبل شہر اور مضافات کے جس چوراہے میں بیس پچیس دہاڑی مار صبح سویرے پہنچ کر بیٹھ جاتے تھے اب وہاں پر یہ تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی ہے اب دیکھنا اور سوچنا یہ ہے کہ یہ سب کچھ کورونا کا کیا دھرا ہے یا وجوہات کچھ اور بھی ہیں کیونکہ امسال جو سرکاری ملازمین تنخواہوں میں10 فیصد روایتی اضافے سے محروم رہے تو کیا یہ بھی وباءکے ہاتھوں ہوا یا صاحب اقتدار بڑوں کا کارنامہ ہے؟