آفتیں

مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے ایک ذہن بنا رکھا ہے کہ جو کچھ حکومت کہے گی ہم نے اُس کی نفی کرنی ہے۔ اگر حکومت کہتی ہے کہ کورونا کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں تو ہمیں احتیاط کرنی چاہئے اور خود کو زیادہ سے زیادہ کھلی جگہوں میں اور جہاں لوگوں کا رش ہو ان جگہوں سے خود کو دور رکھنا چاہئے۔ یہ بات ہمارے فائدے کی ہے اس لئے کہ سب یہ جانتے ہیں کہ کورونا اُس جگہ حملہ کرتا ہے کہ جہاں لوگوں کا اکٹھ ہو۔ جہاں چار لوگ جمع دیکھے گا کورونا نے حملہ آور ہو جانا ہے۔ اس لئے کسی بھی جگہ جمع ہونے سے پر ہیز کریں ۔ بازاروں میں خریداریوں سے اگر کچھ دن پر ہیز کر لیں تو کون سی قیامت آ جائے گی ‘ ان باتوں پر عمل کریں گے تو اس موذی مرض کے پھیلاو¿ میں کمی آئے گی ۔ مگر کیونکہ یہ حکومت کہہ رہی ہے اس لئے ہم نے اس کی مخالفت تو کرنی ہی کرنی ہے۔ اس لئے ہم نے بازاروں میں جانا ہے چاہے ہمیں کچھ خریداری کرنی ہے یا نہیںہے ۔ اب بازاروں کی حالت کو دیکھ لیں کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ ہمیں ایک بہت ہی سخت قسم کی بیماری کا سامنا ہے جس کو کوئی علاج نہیںہے سوائے اس کے کہ ہم خود کو اس بلا سے بچائیں۔ رش والے علاقوں سے خود کو دور رکھیں۔ بازاروں میں کھلی خریداریوں سے بچیں۔اپنی ضرورتوں کو سر دست کم کریں۔ بازاروں میں رش لگانے سے پر ہیز کریں جتنا ہو سکے گھر سے باہر نہ نکلیں ۔ جس طرح خواہ مخواہ بازاروں میں گھومنے کی عادت ہے اس کو فی الحال چھوڑیں ۔ دوستوں کو ہیلو ہائے سے بھی کچھ دنوں تک خود کو روکیں ۔ زندگی رہی تو یہ سب کچھ تب بھی ہو سکتا ہے کہ اس موذی مرض سے دنیاکو نجات مل جائے۔ جس بیماری کا سر دست علاج کوئی نہیں دریافت ہو پایا اس کا علاج پرہیز ہی ہے۔ اس لئے خود پہ جبر کریں اور اپنی روز مرہ کی عادات کو تبدیل کریں۔ بیماری ایسی ہے کہ اس کا پھیلاو¿ ایک دوسرے سے میل ملاپ سے ہوتا ہے اسلئے جب تک اس کا علاج دریافت نہیں ہوتا پرہیز ہی کو علاج سمجھیں۔ بہتر یہی ہے کہ بیماری آپ سے دور رہے تاکہ علاج کی ضرورت ہی محسو س نہ ہو ۔ اگر کچھ دن ایک دوسرے سے میل ملاپ کم کر دیں گے توکوئی قیامت نہیں ٹوٹنی۔ ہاں اگر میل ملاپ بڑھائیں گے تو قیامت ٹوٹ سکتی ہے۔ اس لئے خود پر قابو رکھیں ۔ چند دن کی بات ہے اگر روزہ رکھ لیں گے تو بڑی آفت سے بچ جائیں گے۔ جب تک شائد کوئی علاج بھی ڈھونڈ لیا جائے اس لئے کہ حکماءاور سائنسدان دن رات محنت کر رہے ہیں کہ اس نامراد بیماری کا کوئی نہ کوئی علاج دریافت ہو جائے ۔ اسلئے کہ دنیا میں کوئی بیماری ایسی نہیں ہے کہ کہ جس کا علاج ممکن نہ ہو۔ ہاں دیر سویر بہرحال ہو ہی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی آفت ہے کہ جو اچانک آ گئی ہے اور جب آئی ہے تو سائنس دان چپ کر کے بیٹھے نہیں ہیں۔ دن رات اس کے علاج کی تلا ش میں ہیں ۔ مگر جب تک علاج مل نہیں جاتا تب تک تو ہمیں خود کو پرہیز کی حدود میں ہی رکھنا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے اور جس کا علاج ہی پر ہیز ہے تو اس کے لئے تو بہت حال پرہیز ہی کر نی ہو گی۔پرہیز بھی کیا ہے کہ اپنی ضروریات کوکچھ عرصے کےلئے محدود کر لیں اور کم سے کم بازاروں میں نکلنے کی کوشش کریں۔جتنا کچھ خود کو جمگھٹوں سے دور رکھیں گے اتنا ہی اس مرض کے حملوں سے محفوظ رہیں گے۔ اس لئے غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلیں اور دوستوں یاروں کی محفلیں کم کر دیں ۔ یا جہاں تک ممکن ہو گپ شپ کےلئے ٹیلیفون کا استعمال کریں۔جتنا میل ملاپ کم کریں گے اتنا ہی اس مرض سے محفوظ رہیں گے۔ اللہ کرے کہ یہ بلا جلد از جلدٹل جائے۔ ہاں اس کے ساتھ ساتھ اہتما م یہ بھی کریںکہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اسلئے کہ ایسی بلائیں ہمار ے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں اس لئے جس قدرزیادہ استغفار کرسکیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اللہ کریم اپنی رحمت کرے اور اس بلا کو ہمارے سروں سے ٹال دے۔ بہت سے امراض بظاہر بیماریاں ہوتی ہیں مگر یہ عام طور پر ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ان کا بڑا علاج استغفار ہی ہوتا ہے۔ جب بھی کسی بستی پر اجتماعی طورپرکوئی مرض حملہ آور ہوتاہے تو بزرگ فرماتے ہیں کہ یہ ہماری توبہ سے ہی دور ہوتا ہے اس لئے اجتماعی طور پر توبہ کی جائے تا کہ یہ آفتیں دور ہو جائیں۔