پشاور کے بڑے ہسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے جو مریض جان سے گئے، چند دن اخبارات اور ٹی وی چینل اس سانحہ پر شور کریں گے، سوشل میڈیا پر رسمی سی پوسٹس شیئر ہونگی اور پھر چند دن بعدکسی کو یاد بھی نہیں رہے گا‘ اس سے پہلے سندھ اور پنجاب کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں کئی بار آکسیجن نہ ملنے سے مریضوں کی جان گئی‘ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں تو بیس بچے اس وجہ سے جان سے گئے تھے‘ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو ان کو عوام سے اس حد تک ہی دلچسپی ہے کہ وہ ان کی سیاست زندہ کرنے کے کام آئے‘ کورونا ایک ایسی وبا بن کر دنیا میں آئی ہے کہ تعلیمی ادارے اور عبادت گاہیں تک بند ہوگئیں، لیکن ہماری بے رحم سیاست ہے کہ اس میں تیزی آ گئی ہے جس اپوزیشن کو عوام کا خیال نہیں، اس سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے. حالانکہ سیاسی اشرافیہ اور ارکان پارلیمنٹ نے محدود پارلیمانی فرائض کی ادائیگی بھی چھوڑ دی ہے‘ پبلک اکاونٹس کمیٹی اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں بمشکل دس ارکان شریک ہوتے ہیں‘ تمام حفاظتی لوازمات اور احتیاط ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن پارلیمانی ممبران شرکت سے انکاری ہیں۔ اب تو پارلیمنٹ ہاو¿س ہی بند کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہی لیڈر جلسوں میں زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھا کرنے کیلئے زور لگا رہے ہیںاس تناظر میں دیکھا جائے توعوام کی مشکلات اور تکالیف کی خبر گیری کرنا یا ان مسائل کو حل کرنے کا جذبہ ناپید ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں اب جو پڑ گئی ہے تو ان کی توجہ ساری اس طرف ہے۔ حال ہی میں جو اپوزیشن کی طرف سے دسمبر کے آخرتک استعفوں کی بات سامنے آئی ہے تو اس سے سیاسی گرما گرمی مزید بڑھ گئی ہے اور جو اہم ترین عوامی مسائل ہیں جن میں مہنگائی سرفہرست ہے وہ ایک طرف رہ گئے ہیں۔سیاستدانوں کو خوب معلوم ہے کہ ہمارے عوام کا حافظہ کمزور ہے وہ جلد ہی اچھی بری باتوں کو بھول جاتے ہیں۔ اس لئے تو آج وہ لوگ پھر عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جو کئی مرتبہ حکومتیں کر چکے ہیں اور اب عوام کی مشکلات اور مسائل کا سبب موجودہ حکومت ہی کو قرار دینے لگے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ عوام ایک بار پھر ان کی ماضی کی غلطیوں کو بھول جائیں گے اور انہیں حکومت کا موقع ایک بار پھر مل جائیگا جس طرح ماضی میں وہ حکومتیں کر چکے ہیں اسی طرح ایک با ر پھر اپنی مدت پوری کر لیںگے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام کی حالت بدلنے اور ان کے مسائل حل کرنے کی طرف حقیقی معنوں میں توجہ دی جائے اور ملکی ترقی کو پیمانہ قرار دیا جائے۔ اشیائے صرف کی دستیابی اور سستے داموں ان کی عوام تک رسائی کو پیمانہ قرار دیاجائے کہ اب کن کو ملک پر حکومت کا حق ہے ۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو بہت ہی کم حکمران ایسے نظر آئینگے جنہوں نے اس طرف توجہ دی ہے ۔اور پھر اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو ان حالات میں تحریک چلانا ور جلسے جلوس یقیناکوئی عوام کی خد مت نہیں۔