خطاطی کا بازار

 شی آن ایک زمانے میں چین کا دارالسلطنت ہوا کرتا تھا‘ ایک ایسا شہر جو ثقافت اور ذوق جمال کے حوالے سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے‘ میں اکثر اسے چین کا لاہور کہا کرتا ہوں کہ دونوں میں قدامت اور تہذیب قدیم ہے‘بے شمار بچے اپنے والدین کے ہمراہ یا سکول ٹیچرز کے ساتھ اس بازار میں سے خطاطی میں استعمال ہونیوالی اشیاءخرید رہے تھے اور دکاندار نہایت خوش مزاجی سے بچوں کو بتا رہے تھے کہ انہیں خطاطی کیلئے کونسا کاغذ استعمال کرنا چاہئے‘ کونسا قلم اور کس موٹائی کا ان کیلئے موزوں رہے گا...ظاہر ہے وہاں ایسے بوڑھے بھی تھے جن کا مشغلہ خطاطی کرنا تھا اور ایسے نوجوان بھی جو اس فن کے شیدائی تھے...تقریباً آدھے کلومیٹر پر محیط یہ بازار بے حد پررونق تھا...بازار کے اختتام پر ایک صاحب جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ چین کے ایک معروف خطاط ہیں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے تھے‘ اپنے آگے پھیلے خصوصی کاغذ پر وہ اپنے برش اور قلم کے جوہر دکھا رہے تھے اور ان کے گرد جمع لوگ ان کی ہر سٹروک پر یوں داددے رہے تھے جیسے وہ کسی مشاعرے میں شریک ہوں وہ خطاط لوگوں کو دعوت دے رہے تھے کہ وہ بھی شریک ہوں اور انکی راہنمائی بھی کررہے تھے... اگرچہ میں ایک بدخط شخص ہوں‘ گوہر قلم وغیرہ نہیں ہوں نہ ہی نفیس رقم ہوں لیکن پھر بھی میں نے آگے بڑھ کر خطاط کو اپنے پاکستانی ہونے کا بتایا اور پھر کاغذ پر اپنا نام‘ پاکستان اور اللہ کے حروف اپنی طرف سے نہایت خوش خط لکھے...خطاط صاحب خاصے حیران ہوئے وہ ہمارے رسم الخط پر فدا ہو رہے تھے اور میری ” خطاطی“ کی تعریف اسلئے کر رہے تھے کہ ان کے خیال میں ہمارے ہاں اسی نوعیت کی خطاطی ہوتی ہوگی شاید انہوںنے چینی زبان میں مجھے نادرالقلم وغیرہ کا بھی خطاب دیا...میں نے انہیں بتایا کہ ہم مسلمانوں میں بھی خطاطی کی ایک قدیم اور شاندار روایت موجود ہے اگرچہ ہم اسکی جانب زیادہ توجہ نہیں کر رہے ہمیںاپنے سوا دنیا بھر کے ملکوں کے اندرونی معاملات میں زیادہ دلچسپی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم خطاطی ایسے شاندار ورثے سے شدید غفلت برتتے رہے ہیں نہ اسے حکومت کی سرپرستی حاصل ہے اور نہ ہی اسے سیکھنے کیلئے کوئی معروف ادارے ہیں‘ جولوگ یہ فن سیکھنا چاہتے ہیں وہ خطاط حضرات کے پیچھے دھکے کھاتے پھرتے ہیں خطاط بھی سکھانے میں بخل اور تکبر سے کام لیتے ہیں بلکہ سکھاتے کم ہیں اور طالب علموں سے” چھوٹے“ کا کام زیادہ لیتے ہیں‘ اوئے استاد کے سامنے مود¿ب ہو کر بیٹھو‘ بازار سے ذرا پکوڑے تو لے آﺅ پھر’ الف“ لکھنا سکھائیںگے...اس سے بہتر تو ہمارے زمانے تھے کہ ہم باقاعدگی سے تختی لکھتے تھے‘ سیاہی خود بناتے تھے اور تختی پر چکنی گاچی مل کر اسے تیار کرتے تھے‘ علاوہ ازیں خوش خطی کے نمبر الگ ملتے تھے جو مجھے پاپوش رقم ہونے کے حوالے سے کبھی نہ ملے...میرے ابا جی بے حد خوش خط تھے اور انہوں نے باقاعدہ خطاطی سیکھی تھی کہ ان زمانوں میں اسے ذوق نفیس کا ایک معیارگردانا جاتا تھا۔خطاطی کو ہمارے معاشرے میں ایک باعزت مقام اسلئے بھی نہ مل سکا کہ ” کاتب“ ہونا بھی باعث عزت نہ تھا...جتنے بھی خصوصی پیشے تھے انہیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا... فلاں کمہارہے‘ جولاہا ہے‘ گلوکار‘ میراثی ہے‘ نائی یا دھوبی ہے یاپھر کاتب وغیرہ ہے اور یہ ذہنیت ابھی تک چلی آتی ہے...ہم ہاتھ سے کام کرنےوالے ہنرمندوں کو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے اور نہ ہی اب دیکھتے ہیں اور اسکے باوجود ہمارے ہاں کیسے کیسے نابغہ¿ روزگار پیدا ہوئے اور انہوں نے دنیا بھر میں اپنے فن کی دھاک بٹھا دی...میں یہاں خطاطی کی تاریخ بیان نہیں کرونگاکہ آپ اس کیلئے گوگل سے رجوع کر سکتے ہیں جس کے پاس مجھ سے کہیں وسیع معلومات محفوظ ہیں...مجھے برصغیر کے نامور خطاط حافظ یوسف سدیدی سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور وہ ایسے درویش صفت شخص تھے کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو فیض پہنچایا‘ اپنا فن بغیر کسی معاوضے کے لالچ کے سکھایا اور کبھی بخل سے کام نہ لیا...میں خطاطی کے فن کی باریکیوں سے آگاہ تو نہیں لیکن اسکے باوجود میں یوسف سدیدی کا ہاتھ درجنوں نمونوں میں سے پہچان سکتا ہوں کہ وہ اس فن میں یکتا تھے1975 ...ءمیں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد میرا خالہ زاد بھائی کیپٹن ساجد نذیر اپنے جہاز کے کوئٹہ میں کریش ہو جانے سے شہید ہوگئے...میری درخواست پر حافظ صاحب نے اس کی قبر کا کتبہ رقم کیا...جب میں نے براہ راست نہیں کسی کے ذریعے معاوضے کے بارے میں استفسار کیا تو ان کا جواب تھا ”میں شہید کا کتبہ رقم کرنے کا معاوضہ لینا گناہ سمجھتا ہوں... یہ تو میرے لئے باعث برکت ہے...“ اور ایک آج کے مکمل طورپر کمرشل ہو چکے خطاط ہیں کہ ان سے ایک حرف” اقرائ“ لکھنے کی درخواست کریں تو وہ آپ کو فوراً ایک لمبی تفصیل بتائیں گے کہ فلاں میوزیم نے ان کی خطاطی اتنے ہزار پاﺅنڈ میں خریدی ہے اور فلاں صاحب نے مجھے اتنی رقم دی تھی تو بہرحال موقع ملا تو لکھ دینگے‘احمد خاں کا انداز سب سے جدا منفرد ہے...ان کے سنہری رنگ اثرانگیز ہیں‘ چونکہ بنیادی طورپر ڈیزائنر اور مصور ہیں اسلئے وہ ان خوبیوں کی بنیاد پر بہت سے ہم عصروں پر فوقیت رکھتے ہیںموجد‘ اسلم کمال اور شفیق فاروقی بھی قابل ذکر ہیں لیکن یہ صادقین تھے جنہوں نے اس فن کو اوج کمال پر پہنچایا...انہوں نے خطاطی میں ایک مختلف راہ اختیار کی...بیشتر مصور خطاط صرف حساب کتاب سے ایک ڈیزائن کے مطابق اکثر فٹے اورپرکار کی مدد سے خطاطی کرتے ہیں لیکن صادقین ہاتھ میں برش یا قلم تھام کر براہ راست فری ہینڈ میں خطاطی کرنے پر قادر تھے...جن دنوں وہ میرے اولین سفر نامے” نکلے تری تلاش میں“ کو مصور کر رہے تھے اور یہ اردو ادب کی پہلی کتاب تھی جس کو انہوں نے مکمل طورپر مصور کیا بلکہ سرورق کے علاوہ میری پورٹریٹ بھی تخلیق کی‘ انہوں نے ایک مختصر زندگی میں اتنا کام کیا کہ یہ ایک معجزہ ہی لگتاہے‘ پاکستان اور ہندوستان میں ایسے درجنوں ادارے‘ عجائب گھر اور تاریخی عمارتیں یہاں تک کہ منگلا کا پاورسٹیشن ہے جہاں اس مصوری کے جائنٹ کے ہاتھوں کے مصور کردہ جہازی سائز کے میورل نمائش پرہیں...