بغاوت کے الزامات پر سنجیدگی کی ضرورت

ان دنوں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں عروج پرہیں اور دونوں ایک دوسرے کے وجود کو ہی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔کہیںپر حکومت اگر تھوڑی نرمی دکھائے تو اپوزیشن ڈھٹ جاتی ہے اوراگر اپوزیشن کہیں پر نرمی کا مظاہرہ کرے تو حکومت اس سے فائدہ نہیںاٹھاتی۔ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو ملک کسی بھی طرح ان اختلافات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر اپوزیشن کاحکومت کو تسلیم نہ کرنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور حکومت بھی اپوزیشن کودیوار سے لگاتی رہے تو پھر جس طرح کے نقصانات کا اندیشہ ہے ۔ان کاسوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں کبھی بھی عام انتخابات کو شفاف تسلیم نہیں کیا گیا، ہر الیکشن پر حکومت کو جعلی ہونے کا طعنہ دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود 2002 کے بعد آنے والی ہر اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی ہے، لیکن اس بار اپوزیشن حکومت کو مدت پوری کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں، حالانکہ انتخابات کے بعد اپوزیشن نے نہ صرف اسمبلیوں کے حلف اٹھائے، بلکہ ہر پارلیمانی سرگرمی میں حصہ بھی لیتی رہی ہے، اس کے باوجود اسمبلیوں کو جعلی بھی کہہ رہی ہے، اور اب حکومت کو گرانے کےلئے سیاسی میدان میں ہے۔ اپوزیشن کے مطالبے اور طرز عمل میں تضاد سے قطع نظر، حکومت کی طرف سے اس تحریک کو سیاسی طور پر ہینڈل نہیں کیا گیا۔ جلسوں پر پابندی اور درجنوں مقدمات بنانے جیسے اقدامات سے اپوزیشن کو تقویت ہی ملی ہے، جہاں تک کورونا کے خطرے کا تعلق ہے تو حکومت کسی کو زبردستی باندھ سکتی ہے، نہ ہی روک سکتی ہے، اگر کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر مقدمات سے کوئی ڈرا نہیں، تو پھر بغاوت کے مقدمات کی کون پرواہ کرے گا۔ ابھی تک کسی سیاسی شخصیت پر کرپشن کے سنگین مقدمات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا، نواز شریف کو سزا ہوئی لیکن کچھ برآمد ہوا، نہ ان کو جیل میں رکھا جاسکا، اب اگر ان پر بغاوت کا مقدمہ بھی بن گیا تو اس سے کیا فرق پڑے گا، کسی سیاستدان کےلئے کرپشن کا الزام بغاوت سے بڑا ہوتا ہے، اگر اس سے ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی تو بغاوت کے مقدمات زیادہ مقبول بنانے کا باعث بنتے ہیں۔ یقیناً یہ بات حکومت کے ذمہ داران کو اچھی طرح معلوم ہوگی، وزیراعظم تو نہیں، مگر وزیر داخلہ اس قسم کے مقدمات اور صورتحال سے گزر چکے ہیں، اس لئے اگر کابینہ نے بغاوت مقدمات کا اختیار سیکرٹری داخلہ کو دے دیا ہے، تو ضروری نہیں کہ وہ اختیار کو فوری استعمال بھی کرنے لگیں۔یہ بہت نازک معاملات ہوتے ہیں، ان کو کسی ایک بیوروکریٹ کی صوابدید پر چھوڑنا بھی عقل مندی نہیں، ہوسکتا ہے اس فیصلے کے خلاف کوئی شہری عدالت میں بھی چلا جائے اور عدالت میں اس کے سود و زیاں پر بحث ہو، لیکن اچھا ہو کہ حکومت خود ہی ایسے اقدام کو واپس لے لے جس سے قومی سطح پر فائدہ ہونے کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہو۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی حکومت اور ریاست کا فرض ملحوظ رکھنا چاہئے اور حدود کے اندر رہتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلائیں تاکہ حکومت راہ راست پر رہے۔مسئلہ اصل یہی ہے کہ دونوں طرف سے لچک کامظاہر ہ نہیں ہورہا جس کی اشد ضرورت ہے۔ سیاست تو نام ہی اسی کا ہے کہ ہمہ وقت گفت و شنید کا دروازہ کھلارہے اور معاملات کو تشدد اور زور زبردستی کی بجائے بات چیت اور مفاہمت سے حل کیا جائے۔ سیاست میں تشدد اور عدم برداشت کی گنجائش ہر گز نہیں اور اگر یہ صورتحال بن جائے تو پھر عوام و خواص سب کا اس میں نقصان ہے۔ ملک رہے گا تو سیاست بھی چلتی رہے گی اور حکومتیں بھی آتی جاتی رہیں گی اور ساتھ حزب اختلاف بھی اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔بھارت جوکہ پاکستان کو وجود ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہے ہمہ وقت تاک میں ہے کہ جہاں موقع ملے ،وطن عزیز کونقصان پہنچائے ، بلوچستان ہو یا پھر کنٹرول لائن یا پھر افغان سرحد ہر طرف سے ا س کی کوشش جاری ہے کہ پاکستان کو مشکلات سے دوچار کیا جائے۔یہ وقت بہت احتیاط اور تدبر سے کام لینے کا ہے اور اس کا احساس سب کوکرنا ہے ۔