اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ خاندانوں کا ملاپ ہی ملک میں یک جہتی پیدا کرتا ہے۔ خاندانوں کی ایک دوسرے سے دوری میں اقتصادیات کا بڑا عمل دخل ہے۔ جوں جوںخاندان کی ضروریات میںاضافہ ہوتا ہے نئے خاندان جنم لیتے ہیں۔ اور نئے خاندانوں کے لئے نئی جگہوںکی بھی ضرورت ہوتی ہے یو ں ایک خاندان مختلف خاندانوں میں بٹ کر اپنے لئے نئی رہائش گاہیںتلا شتا ہے۔ یوں ایک خاندان مختلف خاندانوں میں بٹ کر نئی بستیا ںآباد کرتاہے۔ ہندوستان پر جو حملے افغانستان یا ایران سے ہوئے ان حملہ آوروں نے ہندوستان کی زرخیز ز زمینوں کو دیکھ کر یہیں آباد ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ پورے ہندوستان میں آج بھی لوکل باشندوں کا کچھ پتہ نہیں۔وہ سارے لوگ جو ہندوستان کے اصل مکین تھے وہ تو ان حملہ آوروں میں ہی کہیں گم ہو کر رہ گئے۔ ہندوستان میں جو بھی حملہ آور آئے وہ اسکی زرخیز زمینوں اورخوبصورت وادیوں میں ہی کہیں گم ہوگئے۔ جو بھی حملہ آور یہاںآیا فتح حاصل کرنے کے بعد اسی سرزمین کا ہو کر رہ گیا۔ ہندوستان کے مقابلے میں حملہ آوروں کی سرزمین پہاڑی اور پتھریلی تھی کہ جہاں اناج اُگانا بھی ایک مشکل کام تھا اسی لئے جو بھی حملہ آور پشاور کے راستے یا کوئٹہ کے راستے ہندوستان میںآیا پھر واپس نہ جا سکا ۔ اس لئے کہ افغانستان یا ملحقہ علاقوں کی سرزمین پہاڑوں پر مشتمل ہے اور پشاور سے بنگلہ دیش تک کی سرزمین کھلے میدانوں اور نہری زمینوں کی سرزمین ہے ‘اسی لئے جو بھی حملہ آور لشکر ایک دفعہ اس سرزمین پر آیا وہ کم ہی واپس گیا ۔ اب ہندوستان میں اس کے اصل باشندے تو کہیں ختم ہی ہو چکے ہیں اور آج کل جتنے لوگ بھی پشاور سے دلی تک بلکہ بنگال تک آباد ہیں ان میں سے زیادہ تریا ان میںایک بڑی تعداد ان فاتحین ہی کی اولاد ہیں۔ شیر شاہ سوری نے سب سے پہلے سڑکوں کی اہمیت کو سمجھا اور اس نے دلی سے کابل تک شاہراہیںبنوائیں۔ شیر شاہ سوری کے بعد جتنے بھی مغل بادشاہ ہوئے انہوں نے بھی سڑکو ںکی اہمیت کو سمجھا اور ملک کے مختلف شہروںکا ملانے کےلئے سڑکیں بنائیں۔ زیادہ بڑی سڑکیں دلی اور کابل کے درمیان بنائی گئیں کیونکہ دلی کے حکمران کابل سے تعلق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنا تعلق کابل سے قائم رکھنے کےلئے پشاور اور کابل کے درمیان اور پشاور ، لاہور اور دہلی کے درمیان سڑکوں کاجال بچھایا۔ شیر شاہ سوری اس بابت بہت مشہور ہوئے کیونکہ انہوں نے سڑکوں کی طرف بہت توجہ دی۔ انہوں نے دہلی ، لاہور، پشاور اور کابل کے درمیان خوبصورت اور آسائش سے پر سڑکیں بنوائیں جن پر ایک مخصوص فاصلے پر سرائیں بنوائیںاو ر سارے راستے پر پانی کی فراہمی کو یقینی بنوایا تاکہ کابل اور دہلی کے درمیان سفر کرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ کیونکہ کابل اور دہلی کے حکمرانون کا تعلق ایسا تھا کہ ان کے میل ملاپ کےلئے ضروری انتظامات بہت ضروری تھے اسی لئے مختلف بادشاہوںنے دہلی اور کابل کے درمیان سفر کی سہولتوں کا بطور خاص اہتمام کیا ۔ دہلی پر قبضہ کرنے والوں کا تعلق کیونکہ کابل سے ہی تھا اس لئے اس درمیان کے سفر کو محفوظ اور سہل بنانے کےلئے بہت اقدامات کئے گئے۔ راستے میں چند کوس کے فاصلے پر سرائیں بنوائی گئیں تاکہ مسافر آرم کر سکیں اور رات بھی آسانی سے اور سہولت سے گزار سکیں۔ لاہور سے کشمیر تک جو سڑکیںبنوائی گئیں ان کے آثار اب بھی ہزارہ کے بیشتر علا±قوں میں پائے جاتے ہیں ۔ ہمارے بزرگ ان شاہراہوں کو ” بادشاہیا راہ “ یعنی بادشاہوں کا راستہ یا بادشاہوں کا بنایا ہوا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ لاہور سے کشمیر تک جاتا تھا اور یہ مغل بادشاہوں نے بنایا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد شاہراہوں کو توسیع دینے کے سلسلے میں ایوب خان مرحوم کے دور حکومت زیادہ توجہ دی گئی۔