چنانچہ ہم اس بھڑکتی دھوپ میں ترپان کے انگوروں کی چھاﺅں میں سے نکل کر چین کے سب سے قدیمی ایغور مسلمان گاﺅں کی جانب چلے جاتے تھے جسے ”لٹل مکہ“ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ‘ ہمارے لئے مخصوص کی گئی نئی نویلی پراڈو میں مترجم جوائے اور موعائشہ کے ہمراہ ہم یک دم دھوپ میں تپتے ویرانوں میں آگئے اور ہمارے بائیں جانب ذرا فاصلے پر مشہور زمانہ ”فلیمنگ ماﺅنٹین “ کا سرخ چٹانی سلسلہ شروع ہوگیا اور واقعی تیز دھوپ میں سرخ چٹانوں میں سے جیسے گرمی کی شدت سے بخارات یوں اٹھتے تھے جیسے ان میں سے شعلے بلند ہورہے ہیں انہیں اردو میں ”آگ سے دہکتے پہاڑ“ یا ”شعلہ بار سلسلہ کوہ“ بھی کہا جاسکتا تھا ‘ پھر ہم شاہراہ سے جدا ہو کر ایک تنگ چٹانی درے میں داخل ہوگئے اور تب ایک گھاٹی میں پوشیدہ ایک کچا گاﺅں نظر آیا۔ ایغور قبرستان کی گول کچی قبریں اور گنبد نظر آئے اور گھاٹی میں سے ایک مسجد کے مینار بلند ہونے لگے .... یہ ٹویو تھاجسے مکہ گاﺅں بھی کہا جاتا ہے ‘ اس گاﺅں کو ایک قدیم تہذیب کی شناخت کے طور پر ”محفوظ “ کرلیا گیا ہے یعنی اس کے گلی کوچوں اور بام ودر میں ردو بدل نہیں کیا جاسکتا.... اس میں داخل ہونے کا ٹکٹ تھا.... یہاں متعدد روایتی لباسوں میں آراستہ مقامی خواتین میمونہ کی باقاعدہ سہیلیاں ہو گئیں اسکے ہمراہ تصویریں اتروانے لگیں انہوں نے ہمیں اپنے گھروں میں داخل ہونے کی درخواست بھی کی ....ان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے پاکستانی ہیں جو اس دور افتادہ چٹانوں میں پوشیدہ ”لٹل مکہ“ میں آئے ہیں ‘ میں نے مقامی مسجد میں بھی حاضری دے کر رب کا شکر ادا کیا کہ تونے مجھے اس بار چین میں بے شک چھوٹا ہی سہی لیکن مکہ دکھلادیا“اس قدیم ٹویو نام کے مسلمان گاﺅں کو آخر چین کا مکہ کیوں کہا جاتا ہے.... ایک روایت چلی آتی ہے اور مجھے تاریخی طور پر یہ کسی حد تک حقیقت لگتی ہے کہ ان زمانوں میں جب یہ خطے مہاتما بدھ کے پیروکار تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھ رفیق ان کے طالب علم عرب سے سفر کرتے اسلام کو متعارف کرنے کی خاطر لاکھوں صعوبتوں سے یہاں پہنچے.... وہ پہلا شخص جو ایمان لایا ایک گڈریا تھا یہ چھ لوگ اس مقام پر ٹھہر گئے اور اپنی حیات تبلیغ کے لئے وقف کردی ‘ وہ ایک غار کے اندر دفن ہوئے اور ان کے برابر میں ان خطوں کے پہلے مسلمان گڈرئیے کو بھی دفن کیا گیا۔.... وہ کہاں دفن ہیں ! میں نے بار بار پوچھا اور کوئی اشارہ کردیا گیا کہ وہاں.... میں نے یہی جانا کہ دھوپ میں تپتے جو گنبد ہیں شاید ان کے تلے کہیں ان کی آرام گاہیں پوشیدہ ہیں....گرمی کی شدت سے میرا دماغ پگھل رہا تھا اور مجھ سے چلا نہیں جارہا تھا‘ ہمارے چینی میزبانوں نے پوچھا کہ تارڑ .... چلیں.... میں نے آس پاس نگاہ کی تو میمونہ غائب تھی اور پھر وہ انگوروں کی بیلوں سے ڈھکے ایک چھپر تلے کھڑی مجھے بلاتی اور کچھ کہہ رہی تھی.... اس کے برابر میں ایک چھریرے بدن کی رومال سے سر ڈھانکے ایک نوجوان خاتون تھی.... اس کے ہاتھوں میں ایک تسبیح کے دانے گرتے تھے.... میمونہ ایک ہیجان میں تھی جیسے اس پر دھوپ کا اثر ہوگیا ہو.... یہ ڈاکٹر ثریا ہے .... اسی گاﺅں کی باسی ہے اور اس نے ارمچی کی اس میڈیکل یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے جس کا ہم نے دورہ کیا تھا اور یہ کہہ رہی ہے کہ میں اس گاﺅں میں قدم رکھنے والے پہلے پاکستانی مسلمانوں کو اس غار میں لے جاسکتی ہوں جہاں وہ بزرگ اور محترم لوگ دفن ہیں لیکن آپ کے چینی میزبان ہمارے ساتھ نہیں آسکتے....گاﺅں سے اوپر ایک چٹانی بلندی تک سیڑھیاں جاتی تھیں ‘ ڈاکٹر ثریا نے سیڑھیوں کے آغاز میں براجمان کسی متولی نوعیت کے شخص کو کچھ نذرانہ پیش کیا۔ میرا حال کچھ اچھا نہ تھا.... میمونہ اور ڈاکٹر ثریا ہولے ہولے ان سیڑھیوں پر قدم دھرتی مجھ سے آگے چڑھتی جارہی تھیں.... مجھے خدشہ تھا کہ میں گرمی کی شدت سے مسمار ہوسکتا ہوں لیکن .... کیا میں اپنی بقیہ مختصر ہوتی حیات میں اپنے آپ کو مطعون کرتا پچھتا تا رہتا کہ میں نے کیوں نہ ہمت کی بے شک بے ہوش ہوجاتا.... کیوں نہ غار تک پہنچا.... سیڑھیوں کے اختتام پر ایک احاطہ تھا اور پھر ایک مختصر عمارت جس کا گنبد اس بلندی پر نمایاں ہوتا تھا اس مسجد کے اندر بائیں جانب درجنوں خواتین سر ڈھانکے مودب بیٹھی تھیں اور دائیں طرف کچھ مرد سرجھکائے کچھ پڑھ رہے تھے ‘ دونہایت پیارے سفید داڑھیوں والے مولانا قالین پر پھسکڑا مارے بیٹھے تھے اور نہایت خوبصورت خطاطی میں عربی میں تعویذ رقم کررہے تھے .... کوئی ایک عورت آگے ہو کر اپنا کوئی دکھڑا بیان کرتی....اپنی کسی ابتلا کا ذکر کرتی اور وہ اس کے مداوے کے لئے کاغذ پر کوئی قرآنی آیت رقم کرنے لگتے اور میری نگاہیں ان کے عقب میں جو ایک تاریک شگاف تھا اس پر ٹھہری ہوئی تھی.... یہ اس غار کا دہانہ تھا جس کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھ رفیق دفن تھے ‘ کبھی کبھار کوئی خاتون اٹھتی ‘ غارکے دہانے کے برابر میں رکھے ایک عصا کو بوسہ دیتی اور جھکی ہوئی اندر چلی جاتی۔میرے اندر تنگ جگہوں اور بند گذر گاہوں کا ایک خوف ہے ‘ بہرطور ہم پاکستانیوں کے لئے غار حرا تک پہنچ جانا کچھ ایسا دشوار نہیں ....لیکن یہاں چینی ترکستان کے سب سے قدیم مسلمان گاﺅں ٹویو میں کبھی دوبارہ آنا تو ممکنات میں سے نہ تھا .... تو میں نے ہمت کی .... غار کے دہانے عصا کو چوما تو نہیں اسے چھو کر اندر داخل ہوگیا.... غار بے حد تنگ و تاریک تھا۔ جھک کر چلنا پڑتا تھا.... میں راستہ ٹٹولنے کی خاطر بازو پھیلاتا تو وہ چٹان کی سیاہی سے ٹکرا جاتا.... یکدم میں نے محسوس کیا کہ میں مکمل اندھیرے میں چلا گیا ہوں اور مجھ سے سانس نہیں لیا جاتا ‘ میرے پیچھے دو اور زائر غار میں داخل ہوگئے تھے ‘ میرے آگے دو خواتین تھیں اور میں دیکھ سکتا تھا کہ غار کے آخر میں قدرے کشادہ جگہ میں کچھ قبریں ہیں کچھ چراغ روشن ہیں اور تین چار خواتین سر ڈھانکے قرآن پاک کی تلاوت کررہی ہیں.... اس لمحہ میرا دم رکنے لگا ‘ میں نے پلٹ کر پیچھے آتے لوگوںکو مجھے کچھ پہچان نہ ہوتی کہ مرد تھے یا عورتیں.... دھکیلا....اندھیرے میں بھٹکتے بالآخر غار سے باہر آگیا.... بعد میں میمونہ کا کہنا تھا کہ وہ بھی نصف راستہ طے کرکے غار سے پلٹ آئی تھی البتہ ڈاکٹرثریا ان قبروں تک پہنچ گئی تھی اور وہیں ٹھہر گئی تھی وہ بھی زندگی میں پہلی مرتبہ اس غار کے اندر تک رسائی حاصل کرسکی تھی.... میمونہ کا مشاہدہ ہے کہ ڈاکٹر ثریا قبروں کے سرہانے سرجھکائے قرآن پاک کی تلاوت کرنے میں مگن تھی۔مجھ پر اللہ تعالیٰ کا یہ کیسا کرم ہے.... کیسی خصوصی نظر عنایت ہے کہ وہ مجھے ایسے منظر دکھلاتا ہے ‘ ایسے مقامات پر لے جاتا ہے جو اس نے کبھی کسی اور کو نہیں دکھلائے۔ وہ مجھے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے دامن تک لے گیا.... سنو لیک کے پار لے گیا.... غار حرا میں ایک رات بسر کرنے کی اجازت دی اور پھر چین کے ”لٹل مکہ“ تک لے گیا.... اس غار کے اندر لے گیا جہاں میرے جان و مال اور عزیزوں سے بڑھ کر عزیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھ ساتھیوں کی قبروں تک لے گیا.... کہاں؟.... چینی ترکستان کے سب سے قدیم گاﺅں میں میں اپنی خوش بختی پر فخر نہ کروں تو اور کیا کروں....