انتخابی نظام کی اصلاح

موجودہ سینٹ کی آئینی مدت میں ابھی 3 ماہ باقی ہیں‘ 22 مارچ کو نصف ارکان ریٹائر ہو جائینگے‘ عام طور پر سینٹ کے انتخابات 10 مارچ کو شروع ہو جاتے ہیں اور پندرہ تک ووٹنگ ہو جاتی ہے۔ سینٹ پارلیمنٹ کا ایوان بالا ہے‘ اس میں چاروں صوبوں کی مساوی نشستیں ہیں، جبکہ تین وفاقی دارلحکومت کےلئے مختص ہیں‘8 نشستیں فاٹا کی تھیں مگر آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں فاٹا کےلئے مخصوص نشستوں پر الیکشن نہیں ہونگے کیونکہ فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد وہاں کی الگ حیثیت ختم ہو گئی ہے اور 2024 میں سینٹ سے فاٹا کی نمائندگی مکمل ختم ہو جائے گی اس وقت سینٹ میں حکمران جماعت تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی حیثیت اقلیت کی ہے‘ جبکہ اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے‘اسی لئے حکومت کو اپنے منشور پر عمل درآمد کےلئے آئین سازی پر مشکلات ہیں‘ مگر آئندہ سال ہونے والے سینیٹ انتخابات میں یہ توازن حکومت کے حق میں آنےکی امید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ کسی طرح سینٹ الیکشن سے پہلے حکومت ختم ہوجائے یا کم از کم ایسے حالات ہو جائیں کہ الیکشن نہ ہو سکے، اس مقصد کےلئے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا حتمی آپشن بھی رکھا گیا ہے اور پیپلزپارٹی پر دباو¿ ہے کہ وہ سندھ اسمبلی توڑ کر سینٹ الیکشن کا راستہ روک دے‘ جب کہ حکومت کی کوشش ہے کہ الیکشن مارچ کے بجائے وسط فروری میں ہی کرا دیئے جائیں اور خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ ہو، اگرچہ اٹارنی جنرل اور دیگرآئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن ہاتھ کھڑے کر کے ممکن ہی نہیں، البتہ ایسا طریقہ اپنانے کی راہ نکالی جارہی ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ ممبر اسمبلی نے کس کو ووٹ دیا ہے۔ حکومت اس کےلئے آئینی ترمیم کی بجائے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنا چاہتی ہے، اس کے برعکس اپوزیشن کا موقف ہے کہ پولنگ طریقہ کار میں تبدیلی آئین میں ترمیم کے بغیر ممکن نہیں، اب اس کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ‘ہمارے ہاں سینیٹ انتخابات میں ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت کا کھیل شرمناک طریقے سے کھیلا جارہا ہے اور ہر پارٹی کو اس پر تحفظات رہے ہیں، بلکہ مضبوط سیاسی پارٹیاں بھی سینٹ کےلئے مالدار امیدواروں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں، جو ممبران اسمبلی کو خوش رکھ سکیں۔ عمران خان نے تو سینٹ کے انتخابات بھی اسمبلیوں کے بجائے امریکہ کی طرح براہ راست الیکشن کے ذریعے کرانےکی خواہش ظاہر کی تھی، لیکن کچھ سیاست دان اس کے حق میں نہیں‘ کیونکہ دولت یا اثرورسوخ کے ذریعہ ایوانِ اقتدار میں آنے کا یہ ایک آسان راستہ ہے، 1993 سے پہلے ممبران اسمبلی کے فلور کراسنگ پر پابندی نہیں تھی تو ہارس ٹریڈنگ عام تھی ‘پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے مل کر 13 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فلور کراسنگ کا قانون منظور کیا اور ہارس ٹریڈنگ کا راستہ بند ہوا، اگرچہ اس کے بعد فارورڈ بلاک کے ذریعے وفاداری تبدیل کرنے کی راہ نکال کر 2002 میں کام چلایا گیا‘ لیکن عدم اعتماد کا خطرہ ختم ہو گیا اب سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت سے بھی سیاسی جماعتیں تنگ ہیں، اس کے تدارک کےلئے اصولی طور پر متفق بھی ہیں، لیکن حکومت سے تعاون کرنے پر تیار نہیں، اس وقت وسیع مکالمے کی ضرورت پر بھی زور دیا جارہا ہے جن کے ذریعے انتخابی اصلاحات اور دھاندلی اور مداخلت کے خاتمے کےلئے بھی سیاستدانوں میں مذاکرات کی ضرورت ہے۔