منشیات کی خرید و فروخت کا کاروبا ر بے شک ایک بہت ہی منافع بخش کارو بار ہے۔ مگر اُس نفعے کا کیا فائدہ کہ جو مخلوق خدا کو بے کار بنا دے۔ پاکستان میں اس لعنت میں مبتلا لوگوں میں روز افزوں ا ضافہ ہو رہاہے۔ گو حکومت کی طرف سے اس کے خاتمے کیلئے سر توڑ کوششیں ہورہی ہیںتاہم اسکے باوجود دن بدن منشیات کا شکار افرادمیں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ بے حد تشویشناک ہے۔ اسکی وجوہات کیا ہیں یہ بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔اس کی دیگر بہت سی وجوہات تو ہیں ہی تاہم ان میں سے ایک کچھ نیا کرنے کی کوشش ہے، اول تو نوجوانوں میں تجسس کا ماد ہ ہوتا ہے اور جس سے منع کیا جائے اس میں نوجونوں کی دلچسپی خود بخود اُبھر آتی ہے ۔ نوجوانوں میںکسی بھی چیز کا کھوج لگانے کا شوق تو واضح ہے اور یہ شے ایسی ہو کہ اس کی ممانعت بھی کر دی گئی ہو چاہے گھر والوں کی طرف سے یاحکومت کی طرف سے تو جن نوجوانوں نے یہ کام نہیں کیا ہوتا ان میں یہ کام کرنے کا اشتیاق بڑھ جاتا ہے ۔ یہ ایک قدرتی امر ہے۔ ” دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟ “ یہ وہ فقرہے جو نوجوانوں کو کھوج کی طرف مائل کرتا ہے ۔ یہی سوچ انسان کو نشے کی طرف مائل کرتی ہے۔ کیونکہ نشے کےلئے نہ صرف گھر اور سوسائٹی بلکہ حکومت بھی منع کرتی ہے اس لئے نو جوانوں میں یہ کام کرنے کا اشتیاق بڑھ جاتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ” دیکھیں کیا ہوتا ہے“۔ جو نوجوان سگریٹ نہیں پیتے اُن کا سگریٹ کی طرف مائل ہونا اسی فطری تجسس کی خاطر ہوتا ہے ۔ جب ایک دوست سگریٹ پی رہاہوتا ہے تو دوسر ا اس کی طرف یہی سوچ کر مائل ہوتا ہے کہ دیکھیں کا ہوتا ہے۔ اور نشے والے چیزوں کی طرف نو جوانوں کے مائل ہونے میں یہی امر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ نشے سے سارے ہی لوگ ، گھر والے ، محلے والے ، اساتذہ اور دوسرے لوگ نوجوانوں کو منع کرتے ہیں کہ وہ نشے کی طرف نہ جائیں تو لا محالہ نوجوانوںمیں ایک خواہش ابھرتی ہے کہ ”دیکھیں کیا ہوتا ہے“ اور یہی خواہش نوجوانوں کو اس عادت بد میں مبتلا کر دیتی ہے۔ کام کوئی بھی ہو نوجوان اُسے کرنے کی فطری خواہش رکھتا ہے او ر ایسے کام کی جس سے منع کیا جائے اُس کے کرنے کو تو نوجوان تڑپتا رہتاہے ۔ اس لئے کہ نوجوانوں میں کھوج کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہوتاہے۔، اگرجوانوں کو اس عمر میں کام کے چیزوں کی طرف لے جایا جائے تو یہ معاشرے کےلئے بہت سود مند ثابت ہوتے ہیں اور اگر ان کی رہنمائی نہ ہو تو ان کو غلط راہ پر چلنا آسان ہو جاتا ہے۔ غلط راستے سے ساری سوسائٹی ہی نوجوانوں کو روکتی ہے اسلئے ان میں یہ کام کرنے کا اشتیاق پیدا ہونا لازمی ہوتاہے اگر اس وقت میں ان کی اس خواہش کو کار آمد ریسرچ کی طرف موڑ دیا جائے تو یہ سوسائٹی کے لئے مفید ترین ثابت ہوتے ہیں اور اگر ان کی رہنمائی نہ کی جائے تو یہ اکھڑ جاتے ہیں اور پھر یہ کھوج کا مادہ ان کو غلط راستے پر بھی لگا سکتا ہے۔ آپ کو جتنے بھی نشہ باز نظر آتے ہیں یہ ” دیکھیں کیا ہوتا ہے “ ہی سے اس نشے کی ابتدا کرتے ہیں اگر ان کو اس وقت میں کو ئی بہتر دوست یا بہتر کا م کی طرف مائل کرنے والا مل جائے تو یہ معاشرے کے لئے مفید ترین ثابت ہوتے ہیں اور اگر ان کو کوئی نشہ باز دوست مل گیا تو یہ اپنی زندگی تباہ کر لیتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اس کو جس بھی کام سے منع کیا جائے تو وہ اُس کام کو کرنے کی تڑپ رکھتا ہے۔ جوں جوں آپ اُس کو منع کرتے ہیں تو اس میں وہ کام کرنے کا اشتیاق مزید ابھرتا ہے۔ ہاں اگر آپ اسے ایک کام کرنے کے فوائد اور نقصانات سے واقف کرنے کی سعی کرتے ہیں تو وہ فائدے کی طرف جلد مائل ہو جاتا ہے۔ اور اگر آپ اُسے فائدہ نقصان بتائے بغیر اُسے منع کرتے ہیں تو اُس کا اشتیاق اس کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے اور ” دیکھیں کیا ہوتا ہے ‘ ‘ کی تڑپ اس میں بڑھ جاتی ہے۔آپ کو جتنے بھی لوگ کسی نشے میں یا کسی گناہ میں مبتلا نظر آتے ہیں اس کے پیچھے ابتدا اً یہی امر ہوتا ہے کہ ” دیکھیں کیا ہوتا ہے “ اور جب یہ بات کسی بھی نشہ آور چیز کی طرف ہوتی ہے تو وہ نشہ آور چیز ایک دو دفعہ کے بعد گلے ہی پڑ جاتی ہے۔پھر یہ تلاش کی بجائے لازمی ہوجاتی ہے اسی لئے جب بھی کسی نوجوان کو کوئی ایسا دوست یا استاد یا معاشرے کاکوئی ایسا فرد مل جاتاہے کہ جو اسے کسی غلط کام کی طرف جانے ہی نہیںد یتا تو وہ معاشرے کا مفید فرد بن جاتا ہے۔یعنی ماحول ہی ان برائیوں کے پروان چڑھنے کا باعث بنتا ہے اور ان کے خاتمے کے لئے بھی ماحول کی درستگی ضروری ہے اس سلسلے میں مربوط کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کو اس تباہی کی سمت جانے سے روکا جا سکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے اور ان عوامل کا سدباب کیا جائے جن کے باعث نوجوان نسل منشیات جیسی موت کی گھاٹی میں اتر رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی مسئلہ راتوں رات کھڑا نہیں ہوتا اور نہ ہی پھر اس کا راتوں رات خاتمہ ہو سکتا ہے تاہم باوجود اسکے اگر خلوص نیت سے کوشش کی جائے تو کوئی کام نہ ممکن نہیں خاص کر تعلیمی اداروں میں نشے کی نت نئی اقسام کا شکار ہونے والے طلباءکی بڑی تعداد لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ان سے ملک و قوم کا مستقبل وابستہ ہے اور یہ ملک کے روشن مستقبل کی نوید ہیں۔