حکومت کا تجربہ اور کارکردگی

سیاست اور حکومت میں فرق کو وزیراعظم عمران خان نے بڑے آسان پیرائے میں بیان کردیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے، حکومت چلانے کی مناسب تربیت ضروری ہے. کیونکہ ان کو حکومت سنبھالنے کے بعد، تین ماہ تو معاملات سمجھنے میں لگے تھے جبکہ امریکی نو منتخب صدر جو بائیڈن کو تیاری کا موقع مل گیا ہے. وزیراعظم کی بات حقیقت پر مبنی ہے. یہ اعتراف انہوں نے اپنی حق بیانی کے تحت کیا ہے، ورنہ ہمارے ہاں صرف وزارت اور وزارت عظمیٰ ہی بغیر کسی تعلیم اور تجربے کے مل سکتی ہے. جبکہ ایک کلرک بھی تجربے کے بغیر نہیں رکھا جاسکتا۔ وزیراعظم 22 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کے پاس قیادت اور انتظامی امور کا تجربہ بھی تھا ،لیکن اس کے باوجود یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ تین ماہ حکومتی معاملات سمجھنے میں لگ گئے۔ ان کے برعکس ہمیں ایسے وزرائے اعظم بھی ملے ہیں، جن کو چند ماہ کی سیاسی جدوجہد بھی نہیں کرنی پڑی۔ مگر حکمرانی مل گئی ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکمرانی سے مراد ملک چلانا نہیں رہا اور نہ ہی ٹھوس ترقی کو اہمیت دی جاتی گئی۔ میڈیا کے سہارے کامیابی کے دعوی اور اشتہارات کے ذریعے ترقی کا پرچار ہی کامیاب حکمرانی سمجھی جاتی ہے یہ بات پہلے بھی سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کی ترقی کی ٹھوس بنیاد اور پالیسیاں صرف 1960 کی دہائی میں ہی تیار کی گئیں بہت سے منصوبے مکمل ہوئے اور کئی زیر تکمیل رہے، لیکن 1970 کے بعد سارا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔ ان کے بعد گیارہ سال فوج کی نگرانی میں جمہوری نظام چلایا گیا۔ اگرچہ اس دوران مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پیدا نہیں ہوئے، قیمتوں میں استحکام رہا‘اس وقت اصل مقابلہ حکومت اور سٹیٹس کو کے درمیان ہے۔سٹیٹس کو کے حامی طبقے اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں کہ انصاف اور احتساب میں سب برابر ہوجائیں‘ آج ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ ملک کے بڑے اور قابل فخر ادارے، جیسے پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلوے اور پٹرولیم اور گیس کمپنیاں،ان دو سالوں میں نہیں بلکہ گزشتہ تیس سالوں میں تباہ ہوئے۔ لیکن اس عرصہ حکمران رہنے والے اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں، اور ان کی تباہی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو بتا رہے ہیں حالانکہ جن سیاسی کارکنوں کو ان اداروں میں بھرتی کیا گیا، وہ اب بھی بحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اس پس منظر میں وزیراعظم کا یہ دعوی کہ وہ اب حکومت کرنا سیکھ گئے ہیں ایک مثبت پیش رفت ہے کہ وہ وزرا کی کارکردگی کا حساب لیں گے مگر ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وزراءکی کارکردگی ان کی بنائی ہوئی رپورٹس کی بجائے عوام کی رائے سے دیکھی جائے تو اصل حقیقت پتا چلے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت حکومت تشکیل دینے کا ایک بہترین نظام ہے تاہم اس سلسلے میں معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں تو بہتر ہے کہ ہر ملک اور خطے کے مخصوص روایات اور لوگوں کی نفسیات کو اس سلسلے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔