کورونا کی نئی قسم

ابھی کورونا کے حملوں سے دنیا سنبھلی نہیں تھی کہ اب ایک اور خبر آ گئی کہ کورونا کی ایک نئی قسم سامنے آ گئی ہے۔ برطانیہ میں اس قسم نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ یہ قسم تیزی سے پھیل رہی ہے اور نوجوان اس کا شکا ر ہیں۔ابھی پہلی قسم سے ہی نبڑنے کی کوششیں ہو رہی تھیں اور کچھ کامیاب اور کچھ ناکام مگر کوشش بہر حال جاری تھی۔ اب معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں اب کورونا کی ایک نئی قسم نے حملہ کر دیا ے اور نوجوان اس کا ہدف ہیں۔ پہلی قسم کے کورونا کا شکار بھی عام طور پر نوجوان ہی تھے مگر اس قسم نے تو ایک خوفناک صورت پیدا کر دی ہے۔ گو یہ قسم قابل علاج تو ہے مگر جس تیزی سے یہ پھیل رہی ہے اس نے برطانیہ میں خوف کی صورت پیدا کر دی ہے۔ یوں تو کوئی بھی متعدی بیماری ہو اس کاخوف تو ہوتا ہے اور جب تک یہ خوف رہتا ہے کہ جب تک اس کا علاج معلوم نہ ہو جائے۔ اس سے قبل دنیا کو متعدد متعدی بیماریوں نے اپنی لپیٹ میں لیا اورہزاروں کی تعداد میں انسان لقمہ اجل بنے مگر ساتھ ہی ساتھ ان بیماریوں کا علاج بھی ڈھونڈلایا جاتا رہا اور ایک بڑی مخلوق کو ان متعدی بیماریوں کے منہ سے چھڑایا گیا مگر جب تک علاج معلوم ہوا اُس وقت تک بیماریوں نے ایک بڑی مخلوق کو دنیا سے رخصت کردیا ۔ ہر متعدی بیماری جب حملہ کرتی ہے تو اس کا علاج دریافت کرنے میں سائنسدان جت جاتے ہیں اور آخر کار اس کا علاج ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔ مگر جس وقت تک علاج ملتا ہے اُس وقت تک بہت سا نقصان ہو جاتا ہے ۔ایک زمانے میں چیچک نے ایک تباہ کن متعدی بیماری کی صورت میں تباہی مچائی اور ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا مگر سائنسدانوںنے اس کا علاج بھی ڈھونڈ نکالا اور آج اس بلا کا کہیں نام و نشان بھی نہیںہے۔ ہمارے بچپن میں چیچک ایک ایسی بیماری تھی کہ جس نے بہت سے نوجوانوں کوموت کے منہ میں دھکیلا اور بہت سے اپنی آنکھوں سے بھی محروم ہو ئے مگر اللہ کا فضل ہے کہ اس بلا کا علاج بھی مل گیا اور اس سے بچاو¿ کے ٹیکے ایجاد ہو گئے اور بچوں کو یہ ٹیکے لگائے جانے لگے ۔ ہم نے خود سکول کے زمانے میں کئی دفعہ اس سے بچاو¿ کے ٹیکے لگوائے۔ ہر سال ہر سکول میں بچوں کو یہ ٹیکے لگوائے جاتے تھے اس کے علاوہ گھر گھر جا کر بچوں کو اس کے ٹیکے لگائے جاتے تھے یہاں تک کہ اب اس بیماری کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے ۔ اسی طرح اور کئی بیماریوں نے اس دنیا پر حملہ کیا مگر جلد ہی سائنسدانوں نے اس کے دفاع کیلئے دوائیں ایجاد کر لیں اور یہ متعدی بیماریاں آج اس دنیا سے ناپید ہیں۔ مگر ہر دفعہ قدرت بھی ایک نئی بیماری انسانوں کی آزمائش کےلئے بھیج دیتی ہے اور سائنسدان اس کے دفاع میں لگ جاتے ہیں اور آخر کا ر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مگر کہتے ہیںکہ تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ یعنی انسان تو بیماریوں سے بچنے کی تدبیریں کرتا ہے مگر تقدیر ہنس رہی ہوتی ہے کہ ایک بیماری کو تو تو نے شکست دے دی مگر ابھی بہت سی بیماریاں میرے پاس ہیں کہ جو تجھ پر نازل کی جائیں گی ۔ اب بہت سی بیماریاں ایسی انسانیت کو لاحق ہیںکہ جو ابھی تک لا علاج ہیں اور بہت سے جانیں لے چکی ہیں مگر انسان نے بھی ہمت نہیں ہاری اور ان بیماریوں کے دفاع میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے ۔ اور ہوتا یہ ہے کہ جب انسان ایک کام پر تُل جاتا ہے تو قدرت بھی اُس کی مدد کرتی ہے اور وہ اس کام میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ کس قدر تباہ کن وباو¿ں نے اس دنیا پر حملہ کیا مگر آج اُن کا نام و نشان بھی نہیں ہے ۔