اب اس میں کو ئی دوسری رائے تو ہے نہیں کہ کوئی بھی سچا لکھاری اشیا کو جس طرح دیکھتا،پرکھتا اور پھر ان کے بارے میں لکھتا ہے اس کا ادراک بہت کم لو گوں کو اس کے زمانے میں ہو تا ہے البتہ بعد کے زمانوں میں اس کی سوچ اور فکر سے بہت سے لوگ متفق نظر آ تے ہیں، اشیا کو سمجھنے کی توفیق ایک نعمت اور ودیعت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ” ایں سعادت بزور بازو نیست“ یا ’ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ‘ گویا یہ لوگ چنیدہ ہو تے ہیں، جن کو چیزوں کو گہرائی میں دیکھنے کا ہنر عطا ہو تا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جب وہ اپنے لو گوں کو بتاتے ہیں تو بھیڑ چال چلنے والا اور لکیر کا فقیر سماج ان کی کسی بات کا یقین نہیں کرتا بلکہ اسے دیوانہ سمجھا اور کہا جاتا ہے، شاید اسی لئے کہا جاتا ہے ” ہر کہ دانا کند، کند ناداں۔۔ لیک بعد از خرابی ¿ بسیار “ ( جو کام عقلمند شخص کرتا ہے نادان بھی وہی کام کرتا ہے مگر ا±س وقت جب بہت بگاڑ پیدا ہو چکا ہوتا ہے ) فراز کو بھی کل یہی شکایت رہی تھی کہ
ستم تو یہ ہے کہ عہد ِ ستم کے جاتے ہی
تما م خلق مری ہم نوا نکلتی ہے
شاعر ہو ناول و افسانہ نگار اسے ’خدائے بخشندہ ‘ نے چیزوں کو سمجھنے کی جو صلاحیت عطا کی ہو تی ہے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اپنے لو گوں کی رہنمائی کرتا ہے مگر ایسے تخلیق کار کی آواز پر بر وقت کان نہیں دھرا جاتا جس سے سماج میں زندگی کرنے اور برتنے کا توازن بگڑ جاتا ہے، یہ اور بات کہ سچے تخلیق کار کی وہی سوچ اور فکر بہت بعد کے زمانے کو روشنی کا مینار نظر آتی ہے ،خصوصاََ صوفیا کی تعلیمات اور ان میں سے بیشتر کا کلام جب پڑھا جاتا ہے تو کل کی بصیرت آج بھی انگلی پکڑ کر سیدھے راستے پر ڈال دیتی ہے، ایسے لوگ ہر زمانے کے سماج میں اپنی فکر کی روشنی بانٹے نظر آتے ہیں، دور کیوں جائیے اپنے گرد و پیش کو دیکھئے آج بھی شاہ عبدالطیف بھٹائی،سچل سرمست، غلام فرید، بابا بلہے شاہ، مست توکلی ،احمد علی سائیں اور رحمن بابا کا کلام گزشتہ کل کے مقابلے میں زیادہ پڑھا جاتا ہے، جس سے نہ صرف دلی سکون ملتا ہے بلکہ معاشرے میں ایک توازن بھی پیدا ہو تا ہے شاعر ِ انسانیت ، رحمن بابا کا کلام تو جیسے اس خطے کے رہنے والوں کا حافظہ ہے، شاید ہی کوئی ایک فرد ایسا ہو کہ اسے رحمن بابا کا کوئی شعر یاد نہ ہو وہ بھلے سے کسی کالج یونیورسٹی کا پروفیسرہو یا کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والا کوئی غیر تعلیم یافتہ کسان سب یکساں سہولت سے رحمن بابا کے شعر سے روشنی لیتے ہیں، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ صوفی شعرا کا کلام ہمیشہ حالات ِ حاضرہ کے عین مطابق ہو تا ہے، کبھی اس کا ذئقہ پرانا نہیں ہو تا، یہ بھی کیا کم ہے کہ کل کے مشاہیر آ ج بھی لوگوں کے درمیاں سانس لیتے نظر آتے ہیں ، ساڑھے چار سو سال قبل مسیح کے یونان کے رہنے والے اور دنیائے فلسفہ کے عظیم معلم سقراط کو سچ کہنے کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی ، تو اسے ز ہر کا پیالہ پلایا گیا۔ تو آج نہ صرف اس کی تعلیمات دنیا بھر میں علم اور حق کے متلاشیوں کے لئے مشعل راہ ہیں بلکہ سقراط کا نام بھی ہر شخص جانتا ہے شاید اسی لئے عاصم کو کہنا پڑا ورنہ سقراط مر گیا ہو تا
اس پیالہ میں زہر تھا ہی نہیں
یہ سب مجھے اس لئے بھی یاد آ رہا ہے کہ کچھ دیر قبل ہی میری اپنے بیٹے افرازسے فون پر بات ہو رہی تھی، وہ کہہ رہے تھے کہ بہت دنوں سے ایک فلم ”کن ٹیجن “ ( متعدی) دیکھنا چاہتا تھا مگر وقت نہیں مل رہا تھا، بالآخر گزشتہ شب دیکھ لی ، پھر پوچھا کیا آپ نے دیکھی ہے ؟ میں نے کہا کہ ایک زمانہ ہو گیا ہے کو ئی بھی فلم دیکھے ہوئے وقت ہی نہیں ملتا ، کبھی ایک تواتر سے دیکھتا تھا۔ افراز نے کہا مگر پاپا یہ فلم آپ پہلی فرصت میں دیکھیں ، میں نے کہا اس کے بارے میں پڑھا تو ہے مگر دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ، جی میں نے بھی بہت کچھ سن رکھا تھا مگر جب گزشتہ شب یہ فلم دیکھی تواسے دیکھ کر بہت حیران ہوا کیونکہ یہ فلم9سال پہلے بنی ہے مگر اس کی کہانی اور موضوع کا تعلق ” کو وڈ19 ‘ سے ہے، حیران کن حد تک اس میں ایک وائرس کا ذکر ہے جس کا شکار ہونے والے ایک نئی اور پر اسرار بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا علم کسی کو نہیں ہو تا اس لئے نہ تو کسی کے پاس اس کا علاج ہو تا ہے اور نہ ہی اس کےلئے کوئی ویکسین موجود ہوتی ہے ، یہ بھی متعدی مرض ہو تا ہے اور مریض جن چیزوں کو چھوتا ہے وائرس ان پر رہ جاتا ہے اور بعد میں جو بھی چھوتا ہے وہ بھی اس مرض کا شکار ہو جاتا ہے، اور یہ ساری علامات کو وڈ کی بھی ہیں اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ بیماری جن کرداروں سے پھیلتی ہے وہ ” ہانگ کانگ“ ( چین ) سے آئے ہوتے ہیں، اب یہ مووی نو برس پہلے کے بنی ہے مگر اس میں پراسرار وائرس کی ساری نشانیاں وہی ہیں جس کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا پریشان ہے اور یہ بھی چین سے ہی آتا ہے ۔ پھر کہنے لگا آپ نے کو وڈ کی پہلی لہر کے دنوں میں کسی ناول کا بھی شاید ذکر کیا تھا جس میں ایسے ہی کسی وائرس کی بات کی گئی تھی ،میں نے کہا کہ جی ہاں وہ ایک امریکن ناول نگار ڈین کونٹز کا ناول ہے ” دی آئیز آف دی ڈارک نس “ اس میں بھی ایسی ہی ایک وائرس کا ذکر ہے مگر اس میں مبینہ طور پر کہا گیا ہے کہ اس وائرس کو لیبارٹری میں تخلیق کیا جائے گا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس وائرس کا نام ” ووہان ۰۰۴“ ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ 1981 میں شائع ہونے والے اس ناول کے پہلے ایڈیشن میں یہ نام ” گورکی ۰۰۴ “ لکھا ہے، مماثلت تو خیر وائرس کی بھی کووڈ کے ساتھ بہت ہے مگر کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے رائٹر کے اپنے کچھ تحفظات تھے۔ ممکن ہے پہلے پہل گورگی (روس) کا علاقہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا بعد میں چین اس راہ پر چل نکلا تو ناول میں اس کا نام بدل دیا گیا ۔ خیر بات شعر کی ہو، ناول کی یا پھر فلم کی ،رائٹر کی آنکھ اشیا کے ہیت میں تبدیل وقت سے بہت پہلے دیکھ لیتی ہے۔ ہماری اس بحث میں شیکسپیئر کی نظم امیجی نیشن سے سے لے کر ارل اسٹینلے گارڈز کے ناول خصوصا پیری میسن کے سلسلے والے ناول جن میں طویل عدالتی مباحث بھی تھے اور مشہور تھا کہ بہت سے وکیل کئی بار اپنے مقدمات کے سلسلے میں ان سے مدد بھی لیتے تھے، اور ابن صفی کے نا ولوں میں جن ایجادات کا ذکر ہوا ہے اور ’ سنگ ہی آرٹ“ قسم کے کھیلوں اور مشقوں کا وہ بعد میں وجود میں آئی ہیں۔ ایک رائٹر مظاہر کو دیکھتا ہے سوچتا ہے اور سائنسدان اسی فکر کو تجسیم کر کے ایجاد کا نام دیتا ہے اس لئے اس میں کوئی دوسری رائے تو ہے نہیں کہ کوئی بھی سچا لکھاری اشیا کو جس طرح دیکھتا،پرکھتا اور پھر ان کے بارے میں لکھتا ہے اس کا ادراک بہت کم لوگوں کو اس کے زمانے میں ہو تا ہے البتہ بعد کے زمانوں میں اس کی سوچ اور فکر سے بہت سے لوگ متفق نظر آ تے ہیں،پروین شاکر نے کہا ہے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے ر±خ بدلتے ہی تیراک ہو گئے