تکمیل جمہوریت کےلئے جہاں قانون ساز ادارے، ایوان بالا (سینیٹ) اور ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کا وجود اور منتخب وفاقی و صوبائی حکومتوں کا قیام ضروری ہے، وہاں مقامی سطح پر بلدیاتی اداروں کا وجود بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہ ساری دنیا میں، چاہے برطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت ہے، یا امریکی طرز کی صدارتی جمہوریت، بلدیاتی اداروں کا نظام فعال ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی بلدیاتی اداروں کے قیام کو ضروری قرار دیا گیا ہے، لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور جمہوری حکومتیں ہمیشہ بلدیاتی اداروں سے گریزاں رہی ہیں، البتہ فوجی ادوار میں یہ ادارے خوب پھلے پھولے اور ان کے ذریعے ترقیاتی کام بھی ہوتے رہے۔ یہ جنرل ایوب خان کا زمانہ ہو، یا جنرل ضیاءالحق کا یا پھر جنرل پرویز مشرف کا، لوکل باڈیز کو جمہوریت کی نرسری کا درجہ ملا رہا ، بلکہ موجودہ سیاسی لیڈروں کی بڑی تعداد 1980 کی دہائی کے بلدیاتی نظام کے ذریعے ہی سیاست میں آئی تھی، اور بعد میں پارلیمنٹ میں موثر کردار ادا کرتے رہے، 2008 کے بعد سیاست کی یہ نرسری سوکھ چکی ہے، اور ایک بار پھر بلدیاتی اداروں کو مو¿ثر کردار نہیں دیا گیا، اگرچہ سپریم کورٹ کے بار بار احکامات اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری ہونے کے بعد 2014 اور 2015 میں مجبوری کی حالت میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے، لیکن مختلف ترامیم کے ذریعے اختیارات کم کر دئیے گئے۔ اب موجودہ حکومت بھی نئی ترامیم کے ساتھ بہتر اور بااختیار بلدیاتی ادارے بحال کرنے کے دعوے تو کرتی رہی ہے، لیکن ابھی تک کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ سابقہ ادارے اپنی مدت مکمل کر چکے ہیں، لیکن نئے انتخابات کےلئے ابھی کسی بھی صوبائی حکومت نے حتمی فیصلہ نہیں کیا‘گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے قائم وزارتی کمیٹی نے سفارشات تیار کرکے کابینہ کو بھیج دی ہیں، جن میں اگست 2021 میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی سفارش کی گئی ہے، اب صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد یہی سفارشات سپریم کورٹ میں بھی پیش کی جائیں گی، اور عدالت عظمیٰ سے مزید مہلت طلب کی جائےگی، اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ان اہم جمہوری اداروں کو غیر فعال رکھنے کےلئے ایک بہانہ ہی ہے، ورنہ کورونا کی وجہ سے دنیا میں کہیں بھی انتخابات نہیں روکے گئے، امریکہ میں اس وقت صدارتی انتخابات ہوئے جب کرونا انتہائی بلندی پر تھا، اب پاکستان میں بھی حکومت کو سینٹ الیکشن کےلئے ضرورت محسوس ہوئی ہے تو ضمنی الیکشن کرانے کی شروعات ہوگئیں ہیں، لیکن آئینی تقاضا ہونے کے باوجود بلدیاتی الیکشن کرانے میں لیت ولعل کیا جاتا ہے۔ اگر حکومتیں اس پر غور کریں تو بلدیاتی اداروں کی فعالیت سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے کام میں بہت آسانی ہو جائے گی، شہری اور دیہی علاقوں میں ترقیاتی کام تیز ہوں گے، منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی براہ راست نگرانی سے شفافیت آئے گی۔