کورونا ایک وبا ہے‘جب بھی کوئی وبا حملہ آور ہوتی ہے تو مسلمانوں میں ایک عمل کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ مسجدوں میں اور کھلے میدانوں میں مسلمان نکلتے ہیں اور اللہ کریم سے اپنے گناہوںکی معافی مانگی جاتی ہے اور دعا کی جاتی ہے کہ اللہ کریم اس وبا سے مسلمانوں کی اور دیگر انسانوں کی جا ن چھڑائے۔ اللہ کریم اپنی مخلوق کو اس وبا سے محفوظ فرمائے اور انسانوں کو اُن کے گناہوں کی معافی دے۔مسلمانوں کا ایمان ہے کہ جو بھی وبائی بلا انسانوں پر حملہ آورہوتی ہے وہ انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہے اسی لئے جب بھی کوئی وبا کسی شہر پر یا ملک کے کسی بھی حصے پر حملہ آور ہو تی ہے تو وہاں کے مسلمان گاو¿ں سے باہر نکل کر کھلے میدانوں میں اللہ کے حضور دو گانہ ادا کر کے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیںاور وبا سے چھٹکارے کی دعا کرتے ہیں۔ ہم نے ابھی تک یہی دیکھا ہے کہ جب بھی گھروں سے باہر میدانوں میں نکل کر لوگ اللہ کے حضور سر بسجود ہوئے ہیں اللہ کریم نے بڑی سے بڑی وبا کو بھی انسانوں کے سر سے دور کر دیا ہے۔ اب اچانک ہم سارے ہی مادہ پرست ہو گئے ہیں اس لئے بڑی بڑی وباو¿ں کی سائنسی توجیہات ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اس کو اپنے گناہوں سے منسوب نہیں کرتے ۔ شائد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے گنا ہ کرنا ہی چھوڑدیئے ہیں اس لئے ہمیں اللہ سے معافی مانگنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہم ڈاکٹروںکے پیچھے تو دوڑ رہے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ ہم ڈاکٹروں کے پاس جانے کو غلط سمجھتے ہیں بلکہ ہم اسکے علاوہ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں یہی دیکھا ے کہ جب بھی گاو¿ں پر یا علاقے میں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو گاو¿ں کے سارے لوگ یا دو تین گاو¿ں کے لوگ مل کر گاو¿ں سے باہر نکل کر اللہ کے حضور دو گانہ اداکرتے اور اللہ تعالیٰ بڑی سے بڑی وبا کو بھی ٹال دیتے۔ مگر اب ہم لوگوں نے ا س عمل کو چھوڑ ہی دیا ہے۔ شائد ہم بہت ازیادہ مادہ پرست ہو گئے ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اپنے علاج کے لئے ڈاکٹروں کے پاس نہ جائیں ۔ علاج کروانا تو سنت ہے۔ اس لئے علاج کروانا بہت ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی وبا آ جائے تو اس کے لئے بڑا علاج اللہ کے حضور اپنے گناہوںکی معافی مانگنا ہوتا ہے۔ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں یہی دیکھا ہے کہ جب بھی کسی بڑی وبا نے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے تو پورا گاو¿ں یا دو تین گاو¿ں مل کر گاو¿ں سے باہر کھلے میدا ن میں نکل کر اللہ کے حضور دوگانہ ادا کرتے اور گڑ گڑاکر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور وبا کے دور ہونے کی دعا کرتے ۔ تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے وہ وبا دور فرما دیتے۔ اس طرح اگر بارش نہ ہوتی تو بھی گرم دوپہر میں گاو¿ں سے باہر نکل کر دو گانہ ادا کرتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور بارش کے لئے دعا کرتے۔ ہم نے دیکھا کہ بہت دفعہ ہم تپتی دھوپ میں دوگانہ ادا کرنے باہر نکلتے اور کھلے میدان میں دو نفل ادا کرتے اور بارش کے لئے دعا کرتے ۔ اور اللہ کریم مہربان ہوتے اور ہم بارش میں بھیگتے ہوئے واپس گھروں کو آتے۔ جب بھی انسان خلوص دل سے مجموعی طور پراللہ سے دعا کرے ہیںتو اللہ کریم مہربان ہو جاتے ہیں۔ ہم نے بارشوں وغیرہ کو سائنسی وجوہات سے ملاکر مان لیا ہے اس لئے اب بہت سے ہمارے پڑھے لکھے لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے مگر ہم اپنے تجربے کی بنا پر کہتے ہیں کہ ہم نے اتنا سخت ©© ”روڑا “ دیکھا ہے کہ کنووں سے اور چشموں سے پانی سوکھ گیا اور ہم کو میلوں دور سے پینے کا پانی لانا پڑا ۔ ایسے میں اللہ کے حضور دو گانہ پڑھنے کا اہتمام کیا گیا ۔ دو تین گاو¿ں مل کر کھلے میدان میں نکلے اور تپتی دوپہر میں اللہ کے حضور دو گانہ ادا کرنے اکٹھے ہوئے ۔ دو نفل بارش کے لئے ادا کئے اور بارش میں بھیگتے ہوئے واپس گھروں کو لوٹے۔ اللہ کریم بہت مہربان ہے ۔ جب بھی انسان اپنے اجتماہی گناہوں کی معافی کے لئے کھلے میدان میں نکلتے ہیں تو اللہ کریم معاف فرما دیتے ہیں اور جو بھی انسان اللہ سے مانگتے ہیں وہ ان کو عطا فرما دیتا ہے۔ یہ شاید مادہ پرست نہ مانیں مگر ہمار اتجربہ ہے کہ جب بھی اللہ کریم سے اجتماہی طور پر کھلے میدان میں نکل کر دو گانہ ادا کر کے مانگا اللہ کریم نے کبھی مایوس نہیں کیا اور جو مسائل پیش آئے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے بندوں کو اس سے نجات دی۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم لوگ اکٹھے ہو کر کھلے میدان میں نکل کر دو گانہ اداکریں تو اللہ کریم اس وبا سے ہماری جان چھڑا دیں گے۔اس وقت دیکھا جائے تو وباءکی دوسری لہر جہاں شدید ہے وہاں لوگوں میں خوف و ہراس اور احتیاط کی کمی نظر آرہی ہے جبکہ پہلے مرحلے میں نہ صرف حکومت کی طرف سے سخت اور موثر اقدامات اٹھائے گئے بلکہ عوام نے بھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا اور ہر موقع پر حکومتی ہدایات کو مدنظر رکھا اب بھی اگر اسی پیمانے پر اقدامات اٹھائے جائیں تو نہ صرف وباءکی دوسری لہر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ جانی نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھنے میں بھی کامیابی مل سکتی ہے اس ضمن میں دعا اور دوا دونوں کو استعمال میں لانا ضروری ہے ۔