جنوبی ایشیا کی سیاست۔۔۔۔۔۔

جنوبی ایشیا اور بالخصوص برصغیر میں جہاں معاشرت و ثقافت میں بہت مماثلت ہے، وہاں سیاست میں بھی ایک جیسا رجحان پایا جاتا ہے. پاکستان ہو یا بھارت، سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش، بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح خاندانی وراثت کے ذریعے چلائی جاتی ہیں. یہ عجیب اتفاق ہے کہ بھارت میں بابائے قوم کی حیثیت رکھنے والے مہاتما گاندھی اور ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح کی اولاد سیاست میں نہیں‘ اسی طرح بھارت کے مقبول سیاست دان اور سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے عوامی سیاستدان اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وارث ان کی بیٹیاں ثابت ہوئیں‘ بھارت میں اندرا گاندھی اور پاکستان میں بینظیر بھٹو نے دبنگ سیاست اور حکومت کی اور دونوں ہی دہشت گردی کا شکار ہوئیں‘ اسی طرح سری لنکا میں مسزبندرانائیکے اور ان کے بعد ان کی بیٹی نے حکومت کی‘ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے ان کی پارٹی اور سیاست کو سنبھال لیا ہے‘ جبکہ ان کے مدمقابل خاتون سیاستدان خالدہ ضیاءبھی ایک سابق فوجی صدر کی اہلیہ ہیں‘ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان مسلم لیگ کے تمام دھڑے، اس میں کئی شک نہیں کہ اس وقت ہر قومی علاقائی اور مذہبی جماعت میںیہ سلسلہ جاری ہے۔ یعنی عہدوں پر نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ اگرچہ برائے نام الیکشن بھی ہوتے ہیں اور ورکنگ گروپ بھی ہیں، حد تو یہ ہے کہ یہی عوام اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کی حکومت میں بھی مہنگائی اور بے روزگاری کو برداشت کرتے ہیں‘ محبوب حکمرانوں کی کرپشن اور بدعنوانی کو دیکھتے ہیں لیکن ان کی عقیدت میں کمی نہیں آتی بلکہ ان کا دفاع کرتے ہیں جب یہی حکمران کرپشن کے الزامات پر پکڑے جاتے ہیں تو یہی کارکن جلوس نکالتے اور احتجاج کرتے ہیں، مار کھاتے ہیں، اور جان تک دے دیتے ہیں‘ سیاستدان اپنے مفاد کیلئے نظریہ اور سیاسی قبلہ بدل لیتے ہیں، لیکن کارکن ہرحال میں ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے، جس میں قیادت جمہوری طریقے سے تبدیل ہوتی ہے۔ کارکنوں کی تربیت ہوتی ہے اور مسلسل وابستگی سے کوئی بھی ممبر ،امیر بن سکتا ہے، لیکن آج تک جماعت اسلامی عوامی سطح پر وہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکی، جو اس کا حق تھا، اگرچہ 1990 کی دہائی میں مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد اور آئی جی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا، پھر 2002 میں ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کے نشان پر الیکشن لڑ کر اقتدار تک بھی رسائی حاصل کی۔ جماعت کے وزراءاور ارکان پارلیمنٹ پر کرپشن کا الزام بھی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ تحریک انصاف پر بھی خاندانی وراثت کا تو کوئی الزام نہیں، اور عمران خان نے اپنے کسی رشتہ دار کو ٹکٹ بھی نہیں دیا، نہ ان کے بیٹوں کے پاکستان آکر سیاست کرنے کا امکان ہے، لیکن تحریک انصاف عمران خان کی شخصیت کے گرد ہی گھومتی ہے، ان کے بغیر پی ٹی آئی کا وجود ہی نہیں ہے، بہت قابل اور بڑی بڑی شخصیات تحریک انصاف کو چھوڑ گئیں، انہوں نے عمران خان پر الزامات بھی لگائے، لیکن ناکام رہے، نہ عمران خان کی مقبولیت کم ہوئی نہ ان کو چھوڑنے والوں کو پزیرائی ملی، اگر اس صورتحال کو ہم عوام کے شعور کی کمی یا نا سمجھی بھی کہہ لیں بلا تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ سیاسی لاٹ نے جب بھی اقتدار حاصل کیا جمہوری رویوں کو کم ہی پروان چڑھایا مگر جب اقتدار سے باہر ہوئے تو پھر جمہوری رویوں کی بات کرنے لگتے ہیں۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جمہوریت کے استحکام کیلئے ضروری ہے کہ سیاست اور سیاسی جماعتوں میں جمہوری رویوں اور اختلاف رائے کی قدر کو عام کیا جائے۔ سیاست تو نام ہے اختلاف رائے کی قدر کرنے کا اور اختلافات کے باوجود نظام کے قائم رکھنے کیلئے ساتھ چلنے کا۔ اس وقت دیکھا جائے تو اس روایت کی کمی اور تشنگی محسوس ہورہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے کو جمہوری بنیادوں پر استوار کرنے سے اور سیاسی جماعتوں کے باہمی ربط سے ہی جمہوریت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح وہ ماحول سامنے آئیگا کہ جب باہمی سیاسی اختلافات پر توجہ دینے کی بجائے عوامی بہبود پر توجہ دی جائے گی۔