کتابوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔۔

میں نے ایک گزشتہ کالم میں ان مختلف واویلوں کا تذکرہ کیا تھاجو پاکستانی قوم کرتی رہتی ہے اور میں ان میں سے ایک نہایت اہم اور مسلسل کئے جانا والا واویلا بھول گیا...یعنی ادب پر جمود طاری ہو گےا ہے اور کتاب پڑھنے کا کلچر ختم ہوگیا ہے ... اس سے زیادہ بے ہودہ اور بے سروپا کوئی اور واویلا ہوہی نہیں سکتا‘ جہاں تک ادب پر جمود طاری ہونےکا واویلا ہے تو یہ صرف وہ نقاد حضرات کرتے رہتے ہیں جو ماضی میں حنوط ہوچکے ہیں جیسے خوراک کے ڈبوں پر اسکی ایکسپائری ڈیٹ درج ہوتی ہے کہ فلاں تاریخ کے بعد اسے کھانا آپ کیلئے مضر ثابت ہوسکتا ہے ایسے ان واویلا کرنے والے دانشوروں اور نقادوں کی ایکسپائری ڈیٹ بھی کب کی ایکسپائر ہوچکی ہے‘ انکے فرمودات پر دھیان کرینگے تویہ آپ کیلئے انتہائی مضر صحت ثابت ہونگے...ان حنوط شدہ ممیوں کیلئے مناسب مقبروں کی تعمیر شروع کروا دیجئے اور کیا واقعی کتاب کلچر ختم ہوگیا ہے اور لوگ کتابیں نہیں پڑھتے تو یہ دعویٰ صرف وہ کرتے ہیں جو احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں‘ ویسے اگر کوئی واقعی احمقوں کیلئے مخصوص جنت ہوتی ہے تو اس میں کچھ وقت گزارنا کتنا پرلطف تجربہ ہوگا... یقینا اس میں سیاستدانوں‘ دانشوروں اور خصوصی طورپر کالم نگاروں کی کثرت ہوگی تو میں اس میں گھر جیسا آرام محسوس کرونگا... کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ان دنوں نہایت باقاعدگی سے ملک بھر میں جو بک فیئر ہو رہے ہیں کتابوں کے میلے برپا ہو رہے ہیں جہاں سینکڑوں ناشر اپنی شائع شدہ کتب کی نمائش کرتے ہیں تو وہاں احتساب عدالت کے باہر نوازشریف کے گرد اتنا ہجوم نہیں ہوتا جتنا ان کتابی میلوںمیں ہوتا ہے‘اور زیادہ تر وہاں نوجوان نسل کے پڑھاکو لوگ ہوتے ہیں‘ آن ریکارڈ ہے کہ لاکھوں نہیں کروڑوں روپوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں یہاں تک کہ کئی بک سٹال مسلسل اپنے اشاعتی اداروں سے مزید کتابیں منگواتے رہتے ہیں توکیا یہ سب کتابیں لوڈشیڈنگ کے دوران پنکھے جھلنے کے کام آتی ہیں...؟ نصف صدی سے میں میڈیا کے علاوہ کتاب سے منسلک ہوں بلکہ اب تو میڈیا کو کسی حد تک داغ مفارقت دینے کے بعد سراسر کتاب دنیامیں سکونت اختیار کر چکا ہوں تو میرا کہامان لیجئے... جتنی کتابیں اس زمانے میں پڑھی جارہی ہیں پرانے زمانوں میں قطعی نہیں پڑھی جاتی تھیں‘ میں کم از کم دس بارہ ایسی کتابوں کے حوالے دے سکتا ہوں جن کے پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیںمجھے بھی میرے مہرباں‘ دوست بھی‘ اغیار بھی کتابوں کے انبار بھیجتے رہتے ہیں تو آج میں ان میں سے کچھ کتابوں کا سرسری تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو قابل توجہ ہیں... آغازکرتا ہوں اسد محمد خان‘ الطاف فاطمہ کے ہمراہ اردو فکشن کے سب سے اہم نثرنگار ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کے مجموعے ’جھجھک‘سے یہی کافی ہے کہ یہ افسانے ڈاکٹر حسن منظر کے جادوئی قلم کی تخلیقی اولاد ہیں مجھے صرف ایک اعتراض ہے کہ انہوں نے نہایت محبت سے میرے لئے دعائے صحت‘ عافیت کی ہے‘ حالانکہ اصولی طورپر مجھے ان کیلئے یہ دعاکرنی چاہئے تھی کہ وہ مجھ سے کم از کم چھ سات برس بڑے ہیں ’بھیدی‘ ڈاکٹر خالد آفتاب کا تازہ ترین افسانوی مجموعہ ہے جسکا فلیپ اگر بانو قدسیہ یا اس حقیر بندہ ناچےزنے نہ بھی لکھا ہوتا تو انکے افسانے اتنے منہ زور ہیں کہ اپنی قوت کے بل پر ادب کے اکھاڑے میں دیگر افسانوں کو چاروں شانے چت کردیتے...محمد عاصم بٹ‘ہم جیسے نثرنگاروں کی رخصتی کے بعد ہمارا خلاءپر کرنےوالا الجھا الجھا‘چپ چپ نثرنگار’بورخیس کی کہانیوں‘کا مترجم کہ بورخیس میں بھی الجھاﺅ بہت ہے تو دو دیوانے مل بیٹھے ہیں... بے شک میں شاعر حضرات سے پرخاش رکھتا ہوں‘ ان کیلئے مسلسل ایک بغض پالتا ہوں لیکن میں ظفر اقبال کا کیا کروں وہ اپنی شاعری کے یدبیضا سے میرے سب کس بل نکال دیتا ہے’ تاخیر‘ اور’ توفیق‘ اسکی شاعری کے سیلاب کی دو پرشور لہریں ہیں جو ہمیں بہالے جاتی ہیں‘میں بہت دن ایک اصیل مرغ کی مانند گردن اکڑائے پھرا کہ اس عہد کے سب سے شاندار شاعر ظفر اقبال نے اپنی شاعری کے ایک دیوان کو میرے نام کیا ہے‘ اور اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کس نئے شعری مجموعے کی زمینوں نے خیالوں نے خوب خرابوں نے مجھ پر جادو کردیا تو وہ ڈاکٹر اختر شمار کا مجموعہ” عاجزانہ“ ہے تو کیا اگلے مجموعے کا نام ” فقیرانہ“ ہوگا محمد جمیل اختر کے افسانے” ٹوٹی ہوئی سڑک“ میں بکھرے ہوئے ہیں‘ گوئندی نے اپنے اشاعت گھر” جمہوری پبلی کیشنز“ کی جانب سے چلا الہان ے ہم عصر ترک افسانے” دربدر“ شائع کئے ہیں‘ اگر آپ ترکی کو جاننا چاہتے ہیں تو گوئندی اس میں داخلے کا صدر دروازہ ہے‘ شوکت تھانوی کے دونوں بیٹے میرے دوست تھے‘ رشید عمر تھانوی اور اسکے برادر بزرگ جو ٹیلی ویژن پر میرے ساتھ اداکاری کرتے تھے میں نے رشید عمر سے متعدد بار کہا کہ شوکت صاحب کی کوئی کتاب بازار میں نہیں‘ تم کہو تومیں اشاعت کا بندوبست کروں لیکن اس نے غفلت اختیار کی اور پھر مرگیا۔