سیاست کی برف کب پگھلے گی ؟

 ابھی سردی کی لہر برقرار ہے ،جس کی وجہ سے سیاسی رویوں میں بھی سرد مہری باقی ہے. جب پہاڑوں پر برف پگھلنے لگے گی تو سیاست پر جمی برف بھی پگھل جائے گی حکومت اور متحدہ اپوزیشن نے جس طرح غیر سیاسی انداز میں ایک دوسرے کا بائیکاٹ اور مذاکرات کے دروازے بند کر رکھے ہیں، یہ سیاست میں ایک نیا رویہ ہے‘ اگر ماضی میں دیکھیں تو انتہائی مشکل ماحول میں بھی مذاکرات ہی مسائل کا حل قرار پاتے رہے دراصل رابطہ اور بات چیت منقطع ہونا سیاست کی نفی ہے اگر ہم اپنی ہی تاریخ کا جائزہ لیں تو شاید 1973 میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان، آج سے، زیادہ اختلاف تھا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جہاں اپنی پارٹی میں اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے تھے، وہاں اپوزیشن کو بھی اس کا حق نہیں دیتے تھے لیکن آئین کی منظوری کے موقع پر انہوں نے متحدہ اپوزیشن کو نہ صرف راضی کیا بلکہ ان کی آراءکو بھی قبول کیا، اس طرح ایک متفقہ آئین منظور کروایا یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے بعد میں اپنی عددی اکثریت کو استعمال کرتے ہوئے من پسند ترامیم کرکے اپنے لیے وسیع اختیارات حاصل کر لیے، اس کے باوجود 1973 کے آئین کو متفقہ ہی کہا جاتا ہے 1977 کے انتخابات کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے ”قومی اتحاد“ کے درمیان ڈیڈلائن پیدا ہوگئی‘ اپوزیشن نے احتجاجی تحریک کے ذریعے عوام کو متحرک کیا اور ذوالفقار علی بھٹو بے بس ہو گئے’ بالآخر سعودی عرب کے سفیرریاض الخطیب کی مصالحتی کوششوں سے حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھے یہ ایک اچھا موقع تھا لیکن بھٹو مرحوم نے اس عمل کو سنجیدہ نہیں لیا، مذاکرات کو غیر ضروری طوالت دی اور فیصلہ کن مرحلہ پر غیر ملکی دورے پر چلے گئے اس وجہ سے مایوسی پھیلی اور جو جمہوریت کو جو نقصان ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے‘ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں مسلم لیگ نون کی قیادت زیر عتاب تھی تو پیپلز پارٹی کی قیادت بھی خوش نہیں تھی لیکن غیر ملکی دوستوں کی ثالثی اور مذاکرات کے ذریعے ہی نواز شریف فیملی کو سزا میں معافی اور سعودی عرب جلاوطنی ملی، تو بے نظیر بھٹو کو بھی بیرونی دوستوں کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات کے بعد، این آر او بھی ملا اور وطن واپسی کا موقع بھی یہ الگ بات ہے کہ ان کی وطن واپسی ہی ان کی شہادت کا باعث بنی مگر پیپلز پارٹی کو اقتدار ضرور مل گیا۔ پھر عوام نے یہ بھی دیکھا کہ 1985 سے لے کر 1999 تک سیاسی دشمنی نبھانے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے 2008 میں جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں مشترکہ حکومت کا حلف اٹھایا اور جب کچھ عرصہ بعد مسلم لیگ نون نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو گجرات کے چوہدری برادران پیپلزپارٹی کے اتحادی بن گئے یہ سب ناممکن دکھائی دینے والے واقعات جمہوری سیاست اور مذاکرات کی وجہ سے ہی وقوع پذیر ہوئے عمران خان کی سیاست میں علامتی موجودگی تو 1997 سے تھی لیکن "دبنگ" انٹری 2011 میں ہوئی. یہ دراصل دو بڑی جماعتوں کی سیاسی جنگ اور کرپشن کے خلاف ایک تیسری قوت کا ظہور تھا. 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے بھرپورمقابلہ کیا لیکن توقع کے مطابق اقتدار نہیں مل سکا، عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگا کر مسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دی انہوں نے اسلام آباد میں ایک تاریخی دھرنا بھی دیا مگر حکومت کو گرا نہیں سکے. البتہ اس دوران ان کے اور مسلم لیگ نون کے درمیان ایک دشمنی سی پیدا ہو گئی. 2018 میں تحریک انصاف جیت گئی تو مسلم لیگ نون اور خیبرپختونخوا میں عمران خان کے ہاتھ میں اقتدار سے محروم ہونے والے مولانا فضل الرحمن نے ان کی جیت قبول کرنے سے انکار کر دیا البتہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپوزیشن کا کردار نبھانا شروع کیا تحریک انصاف کے احتساب اور سیاستدانوں پر کرپشن مقدمات پر یہ اختلاف اس نہج کو پہنچا کہ پیپلز پارٹی سمیت مزید پارٹیاں بھی متحد ہوگئیں اور پی ڈی ایم کے نام سے اتحاد بن گیا اس کا واحد مقصد عمران خان کی حکومت کو ختم کرنا ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ یہ سب اپنے مقدمات ختم کروانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ اب اپوزیشن جماعتیں اندرونی اختلافات کے باوجود ابھی تک متحد ہیں اور حکومت کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں اور ہر قسم کے مذاکرات بند ہیں۔ اس بار کوئی غیر ملکی دوست بھی مصالحت کے لیے آگے نہیں آیا اور نہ ہی ملک میں کسی طرح کی کوئی قد آور شخصیت یہ کردار ادا کرنے کےلئے موجود ہے چوہدری شجاعت حسین کی مصالحانہ باتیں اپنی جگہ لیکن وہ حکومت کے اتحادی ہیں اس وقت مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل محمدعلی درانی نے پیرپگارا کا نمائندہ بن کر اپوزیشن رہنماو¿ں سے ملاقاتیں شروع کی ہیں وہ اپوزیشن کو حکومت سے مذاکرات پر تیار کر رہے ہیں اگرچہ ابھی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا لیکن ٹریک ٹو ڈائیلاگ کے ذریعے یہ جمود ٹوٹنے کی امید ضرور ہے مگر اس کےلئے پہاڑوں پر برف پگھلنے کا انتظار کرنا ہوگا۔کیونکہ موسم کے اثرات انسانوں رویوں پر بھی پڑتے ہیں۔