ایک بات تو صاف ہے کہ ہم ایک دشمن ہمسایہ کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ وہ ہر وقت اس تاک میں ہے کہ کہیں سے ہماری سرحد کمزور ہو اور وہ در اندازی کر لے۔تو ایسی صورت میں ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ ہمارے جتنے بھی علاقے کم ترقی یافتہ ہیں ان کی طرف حکومت کو خصوصی طور پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ پنجاب ہمارا ایک ایسا صوبہ ہے کہ جو پاکستان بنتے وقت ہی سے ترقی یافتہ ہے، پنجاب میں تعلیمی اشاریہ پاکستان بنتے وقت سے یا اس سے پہلے سے ہی کافی اوپر ہے۔ پاکستان بننے کے بعد پنجاب ہی نے باقی صوبوں کو خصوصاً سرحد اور بلوچستان کی تعلیمی کمی پورا کرنے کےلئے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔سرحد ( موجودہ کے پی کے ) اور بلوچستان بوجوہ تعلیمی میدان میں بہت پیچھے تھے۔ اس لئے ان صوبوں کی تعلیمی کمی پورا کرنے کےلئے پنجاب سے تعلیم یافتہ لوگ لائے گئے اور انہوں نے سکولوں اور کالجوںمیں اپنی خدمات انجام دیں اور ان علاقوںمیں تعلیم کی کمی پورا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ خود ہمارے پرائمری سے لے کر ایم ایس سی تک کے اساتذہ کی بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے تھا۔ یہاں تک کہ ایم ایس سی میں بھی ہمارے صرف دوپروفیسروں کا تعلق سرحد سے تھا اور باقی پروفیسر پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اب کہیں جا کر سکولوں اور کالجوں میں کے پی کے کے اساتذہ کی تعداد زیادہ ہوئی ہے اور ان میں سے زیادہ تر اساتذہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اساتذہ ہی کے شاگرد رہے ہیں‘ اب جن اساتذہ یا دیگر محکموں میں افسران کا تعلق پنجاب سے تھا ظاہر ہے کہ انہوں نے اسی صوبے سے اپنی سروس مکمل کرنے کے بعد واپس جانا تھا ۔ اور اس عرصے میں انہوںنے اس قدر پڑھے لکھے لوگ پیدا کر لئے کہ جو ان کی جگہ لینے کے قابل تھے مگر یہ اسی صورت میں ہونا تھا کہ وہ اساتذہ یا دیگر محکموں میں جو لوگ پاکستان بننے کے بعد آئے تھے انہوں نے ریٹائر تو اسی صوبے سے ہونا تھا مگر اس صوبے کے پڑھے لکھے لوگوںکو بھی تو نوکری کی ضرورت تھی۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جا کر روزگار کرنا کسی بھی شہری کا حق ہے تاہم اس سلسلے میں مقامی بے روزگاروں کی حق تلفی نہ ہو تو سب کچھ ٹھیک رہتاہے۔اس کا مناسب حل پورے ملک میں تعلیم او رصحت کے ڈھانچے کو یکساں ترقی دینا ہے تاکہ کوئی بھی شہری بنیادی ضروریات اور سہولیت سے محروم نہ رہے۔ کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی دینے کیلئے اس وقت جس قدر زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے شاید ہی کبھی رہی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے مقابلے میں ترقی کا سفر تیز ہے مگر ملک کے تمام حصوں کو اس میں بہرصورت شامل رکھنا ضروری ہے۔اب بلوچستان میں جو بد امنی کی لہر چل پڑی ہے تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم پسماندگی کو اس میں بطور سبب نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ترقی یافتہ اور تمام سہولیات اور ضروریات پانے کے بعد کسی کو ورغلانا ممکن نہیں۔ کسی کی محرومی اور غربت سے ہی سماج دشمن عناصرفائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دہشت گرد عناصر کو ہمارے اندر سے وہی لوگ آلہ کار کے طور پر مل سکتے ہیں جو کم تعلیم یافتہ اور اکثر بے روزگار ہوتے ہیں۔ایسے حالات میں کہ جب چین کے اشتراک سے ملک میں سی پیک کے منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں اور بلوچستان ان سارے منصوبوں کا مرکز ہے کیونکہ سی پیک کا بنیادی عنصر تو گوادر ہے جو بلوچستان میں ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ بلوچستان کو ایسی ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کیا جائے کہ وہاںپر کسی کو ضروریات زندگی سے محرومی کی شکایت نہ رہے۔ بلوچستان میں جس قدر ترقیاتی منصوبے ہیں ان میں وہاں کے ہنر مندوں کو زیادہ سے زیادہ موقع ملنا چاہئے اگر ہنر و تعلیم کی کمی ہے و مقامی افراد کو ہنگامی بنیادوںپر ان صلاحیتوں سے لیس کرنا ضروری ہے۔