سیاست میں تشدد کا رجحان پہلے صرف تیسری دنیا کے ممالک میں پایا جاتا تھا، مگر جو کچھ دو دن پہلے امریکہ کے شہر اقتدار ”کیپیٹل ہل“ میں ہوا، جس طرح صدر ٹرمپ کے حامیوں نے پارلیمنٹ میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی، یہ ایک حیران کن بلکہ پریشان کن صورتحال سامنے آئی ہے۔ اگرچہ اس طرح کی ”حمایت“ سے صدر ٹرمپ کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ کو اس پر سخت ردعمل دینا پڑے گا۔ ابھی تو ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کا عندیہ دیا ہے، لیکن ان کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلاکر پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کےلئے اکسانے کا مقدمہ بھی بن سکتا ہے، اگرچہ اس شرمناک واقعے کے بعد صدر ٹرمپ نے 20 جنوری کو پرامن انتقال اقتدار کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ انتخابات کو چرایا گیا ہے، اس لیے امریکی ادارے ٹرمپ کی طرف سے کسی طور پر بھی کسی بات کا اعتبار کرنے کو تیار نہیں، یہ شخص کچھ بھی کر سکتا ہے۔سپیکر پلوسی نے فورسز کمان کو خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کو ایٹمی بٹن سے دور رکھا جائے۔ واشنگٹن ڈی سی میں 21 جنوری تک ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، اگرچہ ان کی حکومت کے دس دن ہی باقی ہیں، لیکن ان کی کابینہ اس واقعے کے بعد مایوس ہوئی اور اپنی سیاسی مستقبل بچانے کے لیے وزراءمستعفی ہو رہے ہیں۔ ویسے تو ساری دنیا میں ہی قیادت کا معیار بہت نیچے گر گیا ہے، اگر امریکہ میں ٹرمپ جیسا صدر منتخب ہو گیا تھا، جس نے نسلی تعصب اور نفرت کو الیکشن مہم کا حصہ بنایا اور جدید دنیا میں انسانی مساوات کا سبق پڑھانے والا امریکہ خود نسلی نفرت اور تشدد کا شکار ہو گیا، تو بھارت میں انتہا پسند اور دہشت گرد ہندو تنظیم کا مستقل رکن اور مسلم دشمنی کی شہرت رکھنے والے نریندر مودی دوسری بار بھی الیکشن جیت گیا، مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد اور بھارت کے جمہوری اور سیکولر شناخت بری طرح داغدار ہوئی ہے، اس طرح برطانیہ میں بورس جانسن وزیراعظم منتخب ہوگیا، جس کو برطانوی سیاست میں بہت کم لوگ جانتے تھے۔ اگر ہم ملکی سیاست کا جائزہ لیں تو یہاں بھی کم و بیش یہی صورتحال نظر آرہی ہے۔کسی وقت ایوان میں جو شخصیات موجود تھیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اور اس وقت جو ایوان میں ہورہا ہوتا ہے وہ بھی سب ہی جانتے ہیں۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی مسلم لیگ اب وہ پارٹی نہیں رہی۔ کچھ ایسا ہی باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہواہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی بھی وہ نہیں رہی۔ جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا پرچم لے کر سیاست کرنے والی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان ہے۔ اس تمام تناظر میں دیکھا جائے تو جس طرح عالمی منظر نامے پر قیادت کا معیار تنزلی کا شکار ہے تو اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مسائل بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ان کو حل کرنے والا کوئی نہیں۔ چاہے یورپ ہو، ایشیاءہو یا پھر عرب ممالک ہرجگہ ماضی کی نامی گرامی شخصیات کی جگہ جن لوگوںنے لی ہے وہ معاملات کو اس طرح چلانے میں ناکام رہے۔ کیوبا کے فیڈرل کاسترو، مصر کے جمال عبدالناصر، یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو، سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز جیسے رہنما اب ناپید ہیں۔ بات امریکی صدر سے چلی تھی جس نے امریکہ کا تیاپانچہ کر دیا، اس کے عالمی کردار کو اپنے ملک تک محدود کرنے میں امریکی صدر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس طرح جس قدر اہم بین الاقوامی معاہدے تھے ، امریکی صدر ٹرمپ نے ان کو پس پشت ڈالا اور کسی بین الاقوامی قاعدے اور قانون کو خاطر میں لانے سے انکار کیا اور حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ اس وقت بھی امریکہ میں ایک بڑی تعداد ا سکے حامیوں کی موجود ہے اور ٹرمپ کی صدارت کا خاتمہ ہونے کے بعد بھی امریکی سیاست میں جو نیا رجحان ٹرمپ نے متعارف کرایااس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔