یوں تو بچپن میں بہت دفعہ اپنے بزرگوں کے ساتھ بالڈھیر سے ہری پور کا سفر کیا مگر کبھی کوئی لمبا سفر کرنے کی نوبت نہ آئی۔ اس لئے اس سفر کی افادیت کا ادراک نہ ہو سکا۔ بس میں تو کافی لمبے سفر بھی کئے مگر اس میں جو تکالیف خصوصاً حاجات ضروریہ کی ادایئگی میں پیش آتی رہیں وہ نا قابل بیان ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے جیسے اور بھی بہت سے مسافر ہوں گے کہ جن کو حاجات ضروریہ اور بس کے لمبے سفر کے دوران کی تکالیف کا سامناکرنا پڑا ہو گا مگر ہم نے کبھی کسی سے اس کا ذکر تک نہیں کیا اور شائد اب بھی نہیںکریں گے مگر ایک بات ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک لمبے سفر کےلئے ریل سے بڑھ کر کوئی بھی سواری نہیں ہو سکی ۔ اس کا اندازہ ہمیں ایک دفعہ پشاور سے لاہور کے سفر کے دوران ہوا۔ ہمارے ایک دوست نے لاہور جانا تھا ۔ اُنہوں نے اپنی ساتھ کمپنی دینے کےلئے ہمارا انتخاب کیا۔ ہم نے کبھی ریل کے ذریعے اتنا لمبا سفر کیا نہیں تھا اگر کبھی ریل کے سفر کا اتفاق ہوا بھی تو حویلیاں سے بالڈھیر یا ہری پور کا سفر کیا جو ہنستے کھیلتے گزر گیا یا گاڑی کے دروازے پر کھڑے کھڑے باہر کے نظارے کرتے کرتے سارا سفرگزار لیا ۔ اب کے جو پشاور سے لاہور کا سفر کرنا پڑا تو ہمیں ریل کے سفر کے فوائد کا اندازہ ہوا۔ اگر آپ نے کبھی بس کے ذریعے اتنا لمبا سفر کبھی یا ہو تو آپکو اندازہ ہوا ہوگا کہ حاجات ضروریہ کےلئے یہ کتنا مشکل سفر ہے اس لئے کہ اگ آپ کو سفر کے دوران کبھی ضرور ی حاجت کا دباو¿ برداشت کرنا پڑے تو اس کےلئے کتنی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے کہ ایک تو سٹیشن کے بغیر گاڑی کا رکوانا اورپھر سڑک کے کنارے خود کو ہلکا کرنا کس قدر مشکل بات ہے خصوصاً ہم صوبہ خیبر پختون خواہ کے لوگوں کےلئے۔ تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ریل گاڑی میںیہ سہولت ہر ڈبے میں موجود ہوتی ہے۔ راستے میں کسی سٹیشن پر گاڑی رکی ۔ ہم دونوں نیچے اتر کر پلیٹ فارم پر کچھ دیر گھومتے رہے اور جیسے ہی گارڈ نے سیٹی بجائی تو ہم گاڑی میں سوار ہو گئے۔ گاڑی میں سوار ہوتے ہی میرا دوست گاڑی کی لیٹرین میں گھس گیا جس کا مجھے علم نہ ہو سکا ۔ گاڑی آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ میرا دوست میرے ساتھ نہیں ہے تو میں نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر اُسے آوازیںدینی شروع کر دیں۔ قریب تھا کہ میں چلتی گاڑی سے اتر جاتا کہ میرا دوست گاڑی کی لیٹرین سے باہر نکل آیا اور مجھ پہ خفا ہونے لگا کہ تم کس لئے چلا رہے تھے میں تو پیشاب کےلئے لیٹرین میں گیا تھا۔ میں نے کہا یار مجھے معلوم نہیں تھا کہ ریل کے ڈبے میں لیٹرین بھی ہوتی ہے۔ میں سمجھا کہ تم نیچے ہی رہ گئے ہو۔ خیر یہ میری معلومات میں اضافہ تھا کہ ریل کے ڈبے میں لیٹرین بھی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ابھی تک تو ہم نے صرف بسوں میں ہی سفر کیا تھا جس میں یہ سہولت نہیںہوتی۔ اس نے بتا یا کہ چونکہ یہ ڈبے لمبے سفر کےلئے استعمال ہو تے ہیںاور ریل کے سٹیشن کافی دور ہوتے ہیں اس لئے ان ڈبوں میں ہر طرح کی سہولیات رکھی گئی ہیں۔یہاں سے پینے کا پانی بھی مل جاتاہے اور یہاں سونے کی سہولت بھی ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہر تین سیٹوں کے اوپر ایک لمبی سیٹ لگی ہوتی ہے کہ جہاںبندہ سوبھی سکتا ہے اور دور کے مسافر را ت کو ان پھٹوں پر نیند بھی پوری کر لیتے ہیں۔ اور دن کو بھی اگر بیٹھے بیٹھے تھک جائیں تو ان پر آرام سے لیٹ سکتے ہیں‘اسلئے لوگ لمبے سفر کےلئے ریل ہی کو پسند کرتے ہیں کہ ان میں ہر طرح کی سہولت ہوتی ہے۔ اور بندہ سفر لیٹ بیٹھ اور سو کر گزار سکتا ہے۔ چھوٹے سفر کےلئے مسافر بیٹھنے والی سیٹوں پر سفر کرتے ہیں اور لمبے سفر والے مسافر دن کو بیٹھنے والی سیٹوںپر ہوتے ہیں اور رات کو وہ اوپر کی سیٹوں پر آرام سے بستر لگاکر سو جاتے ہیں۔ ریل میں تین درجے کے ڈبے ہوتے ہیں ایک میں صرف لکڑی کی سیٹیں ہوتی ہیں اسے درجہ دوم ( پہلے اسے درجہ سوم کہتے تھے) کہتے ہیں اور ان ہی ڈبوں میںدرجہ اول کے ڈبے بھی ہوتے ہیں جن میں بڑے لوگ سفر کرتے ہیں۔ جن کا کرایہ عام آدمی افورڈ نہیں کر سکتا۔