عوام کہاں جائیں ؟۔۔۔۔

اعدادوشمار کا بھی عجیب گورکھ دھندہ ہے، اندرونی اور بیرونی قرضے بڑھ رہے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کھڑا ہونے کو بھی تیار نہیں، برآمدات اور درآمدات میں فرق منفی ہے، بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں بدستور بڑھ رہی ہیں، کچن لوازمات کی قیمت روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے، لیکن محکمہ شماریات اور دیگر حکومتی ادارے جو اعداد و شمار بتاتے ہیں، ان میں برآمدات بتدریج بڑھ رہی ہیں، تجارتی خسارہ کم ہو گیا ہے، دنیا ہمارے اقدامات اور پالیسیاں دیکھ کر متاثر ہورہی ہے، بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور خوشحالی غریبوں کے گھروں میں دستک دے رہی ہے۔ اب بندہ اپنی آنکھوں پر اعتبار کرے یا سرکاری اعدادوشمار پر۔ ہر حکومت مہنگائی کے توڑ کے لیے عوام کو یوٹیلیٹی سٹور کا لولی پاپ دیتی آئی ہے، اگرچہ اس حکومتی نگرانی میں چلنے والے شاپنگ سٹورز میں فروخت ہونے والی چیزوں کا معیار بہت کمتر ہوتا ہے، لیکن عام مارکیٹ سے نسبتاً سستا ًہونے کی وجہ سے غریبوں کےلئے کشش ہوتی تھی۔ اب وہاں دو نمبر اشیاءکی قیمتیں بھی بازار سے زیادہ ہوچکی ہیں، حال ہی میں تیل اور گھی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک چینی بازار سے سستی ہے، لیکن وہ اتنی پھیکی ہے کہ دگنی استعمال ہوتی ہے اور بازار میں ملنے والی موٹی چینی سے بھی مہنگی پڑتی ہے، شروع میں لوگوں نے چینی خریدنے کےلئے یوٹیلیٹی سٹور پر دھاوا بول دیا تھا مگر ایک گاہک کو دو کلو سے زیادہ نہیں دیتے تھے، مگر دو کلو ہی استعمال کرکے لوگ سمجھ گئے کہ یہ چینی گنے سے نہیں بلکہ گھاس سے بنائی گئی ہے، اب ڈھیر لگے ہیں مگر خریدار نہیں۔ عام مارکیٹ میں بھی چینی 85 روپے کلو تک آ گئی تھی اور وزیراعظم نے اپنی معاشی ٹیم کو شاباش بھی دی تھی، مگر دو ہفتوں میں پھر 100 تک پہنچ گئی۔ شوگر مافیا اس لحاظ سے خاص سوچ رکھتا ہے کہ زیادہ ملز اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی ہیں‘ لیکن عوام کےلئے وہ بھی قیمت کم کرنے کو تیار نہیں، اور حکومت میں شامل مل مالکان بھی اپنی حکومت کی ساکھ کےلئے اپنا منافع کم کرنے کو تیار نہیں اور دونوں مل کر شوگر مافیا کے خلاف بیان دے کر عوام کی ہمدردیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ کسی زمانے میں اسکو مفادات کا ٹکراو¿ سمجھا جاتا تھا لیکن اب تو یہ سیاست کے ساتھ لازم ہوگیا ہے، برسراقتدار جماعتوں کی قیادت کا سارا خاندان فوری طور پر مختلف کمپنیاں بنا لیتا ہے، نابالغ بچوں کے نام پر بھی راتوں رات کمپنیاں رجسٹرڈ ہو جاتی ہیں اور ہر حکومتی ٹھیکہ ان کو ملنے لگتا ہے، یہ تو ڈھکی چھپی بات نہیں اور نہ ہی کوئی راز ہے اور یہ سلسلہ کئی عشروں سے چل رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک طرف حکومت قیمتیں کنٹرول کرنے کے اقدامات کا اعلان کرتی ہے، تو دوسری طرف اشیائے ضرورت کے نرخ اوپر ہی اوپر جاتے ہیں۔ حالیہ چند مہینوں میں عوام نے آٹے اور چینی کی قیمتوں کے اچانک اضافے، پھر ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت ملنے پر کچھ عرصہ پہلے فاضل قرار دی گئی گندم اور چینی کو ہی درآمد کرنے کے بعد چند ہفتے قیمت کچھ کم ہونے اور پھر اسی جگہ واپس لے جانے کا عمل دیکھا ہے، حکومتی مشینری کو وزیراعظم کی شاباش بھی مل گئی مگر عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مشہور کاروباری اور سٹیل کنگ کی شہرت رکھنے والے وزیر اعظم نے اپنا اور بچوں کا کاروبار تو دنیا میں پھیلا لیا، مگر پاکستان سٹیل مل نہیں چل سکی۔ اسی طرح ایک دوسرے وزیراعظم نے اپنی ایئر لائن تو کامیاب کرلی مگر پی آئی اے کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکے، ہر کسی کی صلاحیت صرف ذاتی کاروبار کےلئے صرف ہوتی ہے، قومی امور پر وہ توجہ نہیں دی جاتی۔ بہرحال اب اگر وزیراعظم یا ان کا کوئی قریبی رشتہ دار کاروباری نہیں، اور نہ ہی ان کا کوئی مفاد ہے، مگر حکومت میں شامل آدھے سے زیادہ وزراء، مشیر اور معاون خصوصی کسی نہ کسی کاروبار سے منسلک ہیں۔ عوام کا کسی سطح پر کوئی ذکر یا حوالہ ہی نہیں اور نہ ان کی ضرورت و مسائل زیر بحث آتی ہے، سرکاری ملازمین اپنے مطالبات کے لیے پھر میدان میں ہیں، لیکن 93 فیصد عوام جن کی روزی، روزانہ کی مزدوری پر ہے، ان کا کوئی وارث ہے ؟۔