ہمارے بچپن میں سب سے مہلک بیماری چیچک تھی۔ یہ ایک متعدی بیماری تھی کہ جس میں انسان کے جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے نکل آتے ہیں جن میں پانی پڑ جاتا ہے اور اس سے جسم میں داغ پڑ جاتے ہیں ۔ اگر یہ دانے آنکھ کے اندر نکلیں تو آنکھیںضائع ہو جاتی ہیں۔ اور اگر آنکھیںبچ بھی جاتیں تو جسم پر ان دانوں کے داغ دائمی ہو جاتے ہیں۔خصوصاً یہ منہ پر گڑھے چھوڑ جاتے ہیں۔ اب تو ایک عرصے سے اس بیماری کا خاتمہ کر دیا گیا ہے مگر ہمارے بچپن میں یہ عام تھی اور اس کےلئے حکومت کی طرف سے مفت ٹیکے لگائے جاتے تھے جن کو ہم مقامی زبان میں ” بہندہ “ کہتے تھے۔اس کےلئے بڑے پیمانے پر بہندے لگائے جاتے تھے خصوصاً سکولوںمیں تو ہر سال ٹیمیں آتی تھیں اور پورے سکول کے بچوں کو بہندے لگائے جاتے تھے۔ یہ بازو پر تین جگہوں پر پہلے دوائی لگائی جاتی اور پھر ان جگہوں کو ایک چھوٹے سے چاقو کے ساتھ کٹ لگائے جاتے اور پھر ان پر ایک بار پھر دوائی لگائی جاتی تھی تاکہ یہ دوائی جسم میں داخل ہو جائے۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہوتا تھا اس لئے بچے ڈر کے ما رے چھپ جاتے تھے۔ اور یہی لوگ گھر گھر جا کر بھی بچوں کو یہ ٹیکے لگاتے تھے۔گھروں پر بھی بچوں کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ چھپ جائیں مگر جو مائیں جانتی تھیں کہ اگر بچوں کو ” بہندے “ نہ لگائے گئے تو ان کوچیچک کا خطرہ ہو گا اس لئے بچوں کو ضرور یہ ٹیکے لگوائے جاتے تھے جن بچوں نے خو د کو ان ٹیکوں سے بچایا تھا ان پر چیچک کا حملہ عام طور پر ہو جاتا تھا۔ یہ جسم پر نکلنے والے دانوں میں پانی اتنا گرم ہوتا تھا کہ اس سے جسم میں گڑھے پڑ جاتے تھے۔ مگر اتنے گرم پانی کی وجہ سے نکلنے والے دانوں کو مقامی زبان میں ” ٹھنڈیاں “ کہتے تھے۔ ہم نے اپنے بڑوں سے کئی دفعہ پوچھا بھی تھا کہ اتنی گرم بیماری کوٹھنڈیاں ( ٹھنڈی چیز) کیوں کہتے ہیں۔ تو جواب ملا کہ یہ دانے اتنے گرم ہوتے ہیں کہ ان کو برداشت کرنے کےلئے ان کو ٹھنڈیاں کہتے ہیں ( وللہ اعلم ) ۔ ان کے لئے جو ٹیکے لگائے جاتے تھے ان کا اثر بھی ایسا ہوتا تھا کہ جن جگہوں پرٹیکے لگتے تھے وہ عموماً خراب ہو جاتے تھے اور ان کے ٹھیک ہوتے ہوتے کافی دن لگ جاتے تھے۔ اس لئے بچے عموماً یہ ٹیکے ( بہندے) لگوانے سے بھاگ جاتے تھے اور آج بھی ہماری عمر کے بہت سے لوگوں کے منہ پر یہ داغ دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے آنکھیں اس بیماری کی وجہ سے ضائع ہو گئیں اور بہت سوں کی ایک آنکھ ضائع ہوئی۔ تاہم منہ پر داغ تو سب کے آج بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس بیماری کو روکنے کےلئے بہت محنت کی گئی اور برسوں ہر سال بچوں کو یہ ٹیکے لگائے گئے اور یوں آج یہ بیماری کہیںنظر نہیں آتی اب اس کا نام رہ گیا ہے یا وہ اشخاص کہ جو اس کا اپنے بچپن میں شکا ر ہوئے۔ متواتر سالانہ ٹیکوں کی وجہ سے آج یہ بیماری دنیا سے نابود ہو چکی ہے۔ اب جو بیماری عام ہو رہی ہے اور جو چیچک سے بھی خطر ناک ہے وہ پولیو ہے۔ اسی طرح گاو¿ں گاو¿ں اور شہروں شہروں اس بیماری سے بچاو¿ کےلئے عوام کو بچاو¿ کے دو دو قطرے پلائے جا رہے ہیں۔ہر دو چار ماہ بعد ٹیمیں شہر شہر اور گاو¿ں گاو¿ں جا کر لوگوں کو دو دو قطرے پلا رہے ہیں۔ جہاں حکومت کی طرف سے کسی بھی بیماری کے بچاو¿کی مہم جاری کی جاتی ہے تو وہاں اس کے خلاف بھی ایک مہم شروع ہو جاتی ہے اور جو قطرے پلائے جا رہے ہیں ان کے متعلق مختلف غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں جس سے عوام میں بد دلی پھیلتی ہے اور لوگ یہ قطرے بچوں کو پلانے سے انکار کرتے ہیں۔ جو ان کےلئے خطرناک ہوتا ہے۔ چاہئے کہ سب لوگ یہ قطرے پئیں تاکہ اس بیماری کا بھی چیچک کی طرح خاتمہ ہو جائے۔ مگر جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں ( جوصرف افواہیں ہی ہیں ) ان میں کوئی صداقت نہیںہے اس لئے چاہئے کہ بچوں کو بھی اور دیگر لوگ بھی اس بیماری سے بچاو¿ کےلئے دو قطرے ضرور پیئں۔