پی آئی اے طیارہ سکینڈل کا ذمہ دار کون؟

 ملائشیا میں پی آئی اے کا مسافر طیارے کا ضبط کیا جانا ایسے ہی ہوا جیسے بنک لیز پر لی گاڑی کی چند قسطیں لیٹ ہو جائیں تو بینک کی طرف سے مقررکردہ سٹاف گاڑی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ عام طور پر ذرا سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے ڈرائیور، جس گاڑی کی قسطیں لیٹ ہوں، اس کو گیراج سے نکالتے ہی نہیں، لیکن پی آئی اے کے ذمہ داران نے ایک بوئنگ 777 طیارہ اسی ملک میں بھیج دیا، جہاں سے وہ ڈیفالٹر تھا، اس کا نتیجہ بھی وہی نکلا۔ ابتدائی طور پر پی آئی اے نے ان تین افسران کو معطل کر کے ان کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے، جنہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی طیارہ کو ملائیشیا جانے دیا کہ وہاں کی کمپنی کے ساتھ مسئلہ ہے، لیکن اصل مسئلہ جانے بغیر حکومت پر نااہلی کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی ہے، حالانکہ موجودہ حکومت یا پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ اس حوالے سے اتنی ذمہ دار نہیں، بلکہ یہ پی آئی اے کے اس سابق غیر ملکی سی ای او کی کارستانی ہے، جس کو سابق حکومت نے مقرر کیا تھا، اور پی آئی اے کا ایک طیارہ وہ اسرائیل کو فروخت بھی کر گیا تھا، جس کو رنگ تبدیل کرکے فلم میں استعمال کیا گیا تھا۔ اس چیف ایگزیکٹو افسر کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا تھا، مگر جو لوگ اس نابغے کو لائے تھے، انہوں نے اس کو بروقت فرار کرا دیا تھا۔ آج پاکستانی عدالتیں اور نیب، اس کا اسی طرح انتظار کر رہا ہے، جس طرح سابق حکمران خاندان کے چند افراد کا۔ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ غیر ملکی سی ای او نے معمول سے زیادہ مہنگی لیز پر یہ طیارے لیے تھے، اور پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ نے لندن کی ایک مصالحتی عدالت میں کیس کیا ہوا تھا اور کمپنی کے ساتھ لیز کم کرنے کی بات چیت بھی چل رہی تھی، اسی دوران کمپنی نے ملائیشیا کی مقامی عدالت میں مقدمہ درج کرا دیا اور طیارہ ضبط کرنے کا آرڈر لے لیا حالانکہ اس کا پاکستان کو نوٹس بھی نہیں دیا گیا اور یکطرفہ فیصلہ دیا گیا اور جب پاکستانی طیارے پر مسافر سوار ہو چکے تو اس عدالتی حکم کو لے کر طیارے کو روک لیا گیا۔ سابقہ دور میں پی آئی اے کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اور جس طرح لوٹ مار کے ذریعے اس قومی اثاثے کو تباہ کیا گیا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، لیکن زیادتی یہ ہے کہ جن کی وجہ سے یہ نقصان اور رسوائی کا سامان ہوا، وہی لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال براڈ شیٹ کو 5 ارب روپے جرمانہ بھرنے کی بھی ہے، کمپنی سے معاہدہ 2000 میں پرویز مشرف کی حکومت نے کیا کہ 200 پاکستانیوں کی غیر ملکی اکاونٹس اور جائیدادوں کی کھوج لگائے، اور بعد میں مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان این آر او ہو گیا اور کمپنی کو منع کردیا گیا کہ وہ کسی غیر قانونی اثاثے کی تلاش نہ کرے چونکہ کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہی یہی تھا کہ جتنے اکاؤنٹس کی نشاندہی ہوگی، اس کا 20 فیصد کمپنی کو کمیشن ملے گا، جب بعد میں آنے والی حکومتوں نے اسے کام سے روکا، تو براڈ شیٹ کمپنی نے جرمانے کا دعوی کر دیا اور فیصلہ موجودہ حکومت کے دور میں آیا، اب اس بات کی تحقیق ہونی ہے کہ براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ کس نے کیا تھا، اور اس کے کام میں رکاوٹ کس نے ڈالی، جس کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا لیکن شاید ہی اس کا کھوج لگایا جا سکے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ موجودہ حکومت نے بڑے معرکے سر کئے ہیں مگر دوسروں کے قصور اور جرائم تو ان کے کھاتے میں نہ ڈالے جائیں اور اپوزیشن کو بھی عوام پر کچھ رحم کرنا چاہئے۔ متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم، حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے، مگر یہ مہنگائی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے جلد فیصلے اور احتساب عدالت میں اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے فیصلے روکنے کے لئے ہے۔ خود کوئی عدالتی حکم یا کسی آئینی ادارے کی طلبی کو ماننے کو تیار نہیں، مگر الیکشن کمیشن اور عدالتوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ اپوزیشن کی مرضی کے مطابق فیصلے کریں۔ اگر اسلام آباد میں چڑھائی کا مقصد پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو روکنا ہوتا یا بجلی کے نرخ بڑھانے کے خلاف ہوتا تو یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ اپوزیشن کے دل میں کچھ نہ کچھ عوام کی ہمدردی بھی ہے، مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ ابھی آئی ایم ایف کی طرف سے نئے قرضے کیلئے پہلی شرط ہی یہی ہے کہ بجلی کے نرخ 3 سے 4 روپے یونٹ بڑھائے جائیں اگر اپوزیشن دباؤ بڑھائے تو اس ظلم کو روکا جا سکتا ہے۔لیکن شاید اپوزیشن بھی چاہتی ہے کہ عوام پر مزید مہنگائی کا پہاڑ ٹوٹے اور حکومت کے خلاف نفرت بڑھے اس طرز سیاست کا ملک یا عوام کو کیا فائدہ، جو ذاتی مفاد کے سے باہر نہ نکلے۔