انسان کے اس دنیا میں آنے کے بعد سے اس دنیا میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ ہر تبدیلی سے قبل یا بعد میں کچھ ایسی صورتیں پیدا ہوتی رہی ہیں کہ جوا نسان کے فہم و ادراک میں بھی نہیں ہوتیں۔ گو انسان نے ہر تبدیلی کے ظہور کی وجوہات تلاش کرنے میں کوتاہی نہیں کی مگر اس کے باوجود وہ بہت سی قدرتی آفات کی وجہ معلوم ہونے کے باوجو ان پر قابو نہیں پا سکا ۔ زلزلوں کو ہی لیجئے ا نسان نے یہ تومعلوم کر لیا کہ یہ زمین میں بعض تبدیلیوں کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں مگر نہ تو ابھی تک ان کی پیش گوئی کر پایا ہے اور نہ ہی ان سے بچنے کی تدابیر کر پایا ہے۔ اس لئے کہ زلزلے اس قدر اچانک ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ انسان خو دکو اور اپنے مالی نقصانات کو نہیں بچا سکا۔ اور نہ ہی زلزلہ آنے سے قبل اس کی آمد کا پتا پا سکا ہے کہ اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ فلاں وقت پر اتنی طاقت کا زلزلہ آئے گا تو وہ اپنی جان و ما ل کا پہلے سے بچاو¿ کا بندوبست کر لیتا اور جو نقصانات وہ زلزلوںکی وجہ سے اٹھا تا آیا ہے یا اٹھا رہا ہے تو وہ نہ ہوتا یاکم از کم ان نقصانات میں کمی لاسکتا۔ مگر ایسا ابھی تک نہیں ہو پایا ۔ پہلے تو زلزلوں کے متعلق عجیب و غریب نظرئیے ہوتے تھے جو آج بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ہےں یہی وجہ ہے کہ جب بھی کہیں زلزلے آتے ہیں تو وہ بہت زیادہ انسانی جانوں اور مال کا ضیاع کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ جنہوں نے انسانی جانوں کا بہت زیادہ ضیاع کیا مگر اُن کی وجوہات معلوم کر کے ان کے قبل از وقت بچاو¿کے طریقے نکال لئے ہیں اور بہت سی ایسی بیماریاں کہ جنہوں نے بہت زیادہ جانی نقصانات کئے تھے اُن کو نہ صرف یہ کہ علاج دریافت کیا بلکہ بہت سے متعدی بیماریوں کو خاتمہ ہی کر دیا ۔ آج آپ کو طاعون اور چیچک کا کہیں نام و نشان نہیںملتا جب کہ ماضی میں ان بیماریوں نے مخلوق خدا کولپیٹ میں لیا اور بہت زیادہ جانی نقصانات کئے۔ مگر سائنس دانوں نے ان بیماریوں کی وجوہات معلوم کیں اور ان کے تدارک کے طریقے ڈھونڈے اور ان کو دنیا سے معدوم کر دیا۔ اب ایک عرصے سے چیچک یا طاعون کا نام نہیں سنا گیا جب کہ ماضی میں یہ سب سے بھیانک وبائیں تھیں۔ مگر قدرت کی طرف سے کوئی نہ کوئی آزمائش آتی ہی رہتی ہے جیسے آج کل کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے مگر ابھی تک اس و با کا تدارک نہیں کیا جا سکا گو اس سے بچاو¿ کے طریقے تو ایجاد ہو رہے ہیں مگر اس کا علاج ابھی تک انسانی عقل سے دور ہے۔ لیکن مایوسی کی کوئی بات نہیں جس طرح سابقہ وبائی آفتوں کا علاج ڈھونڈ کر ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے اسی طرح انشا اللہ ان بیماریوں کو بھی ختم کر دیا جائے گا ، مگر ہوتا یہ ہے کہ جس وقت تک ایسی وباو¿ں کا علاج ملتا ہے اُس وقت تک یہ بہت زیادہ جانی نقصانات کر چکی ہوتی ہیں۔ جس طرح طاعون نے ماضی میں انسانی جانوں کو تباہ کیا کہ بزرگ بتاتے ہیں کہ ہم ایک قبر تیار کر ہی رہے ہوتے تھے کہ گاو¿ںسے اطلاع آ جاتی کہ ایک اور قبر تیار کر لو۔ یعنی اس وبا سے اتنی تیزی سے اموات ہوتی تھیں کہ الامان و الحفیظ مگر انسان نے اس تباہی پر بھی قابو پالیا اور اس طرح قابو پایا کہ اب یہ بیماری قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اسی طرح چیچک نے بھی انسانی جانوں کا بری طرح ضیاع کیا مگر انسان نے اس پر بھی ایسا قابوپایا کہ اب یہ بھی دنیا سے نا پید ہو چکی ہے۔ آزمائشوں اور آفات کاسلسلہ جاری رہتا ہے اس لئے ہر سال دو سال بعد کوئی نہ کوئی ایسی آفت آ ہی جاتی ہے کہ جو بہت سی جانیں نگل جاتی ہے مگر انسان بھی مایوس نہیں ہوتا اور ہر نئی آفت کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک نئی ایجاد لے آتا ہے کہ جو اس وبا کو ختم کر دیتی ہے۔ مگر جیسا کہ کہاگیاہے کہ ا نسان ابھی تک کسی آفت کی پیش گوئی نہیں کر سکا اور نہ پیش بندی کر سکا ہے اسی لئے آنے والی وبا چاہے زلزلوںکی صور ت کو یا کسی وبائی بیماری کی صورت ہو بہت زیادہ انسانی جانیں لے جاتی ہے۔ اس وقت بھی جو آفت آئی ہوئی ہے کورونا وباءکی صورت میں اس کے حوالے سے اقدامات اور احتیاط کے ضمن میں حکومتی کوششوں کا عوام کو ساتھ دینا چاہیے تاکہ جانی نقصان کو کم از کم سطح پر رکھا جاسکے۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ایسی بیماری کا مقابلہ احتیاط سے کریں جس کا کوئی خاطر خواہ علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکاہے۔