اخلاقی دیوالیہ پن۔۔۔

جب شہرت اور دولت کا حصول ہی مقصد بن جائے، تو انسان کو انسانیت سے گرنے میں بھی عار محسوس نہیں ہوتا، کسی شاعر نے کہا تھا”بد نام اگر ہوں گے، تو کیا نام نہ ہوگا“ موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے پہلے ہی اخلاقی حدود کو پامال کر رکھا تھا، اس پر چین کی ایپ ”ٹک ٹاک“ نے ایک مخصوص تعداد میں ناظرین (ویوورز) کو متوجہ کرنے پر معاوضہ بھی دینا شروع کیا تو جیسے بد تمیزی اور بد تہذیبی کا طوفان آگیا، بالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تو توجہ حاصل کرنے کےلئے سماجی اور معاشرتی اقدار کو پامال کرنے پر مائل ہوگئے۔ مزاح ہمارے ہاں ہمیشہ سے تفریح کا ایک ذریعے رہا ہے، یہ تحریر کی شکل میں ہو، سٹیج پرفارمنس کی شکل میں، یا فلم اورٹی وی ڈرامے کی صورت میں، لیکن ان میں بہرحال اخلاقی حدود کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اگرچہ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے سٹیج پر جگت بازی کے نام پر گالم گلوچ اور نامناسب رقص کے باعث ماحول پراگندہ ہوگیا تھا، لیکن سوشل میڈیا اور بالخصوص ٹک ٹاک نے تو اس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نئی ایپ کے ذریعے شہرت و دولت کمانے کی دوڑ میں پیشہ ور اداکار اور اداکارائیں شامل نہیں ہیں، بلکہ یہ پہلی بار اس طرح کی چھوٹی چھوٹی ویڈیوز میں بالکل نئے نوجوان سامنے آئے اور دولت کے ساتھ شہرت بھی کمانے لگے۔ اس کی بڑی وجہ نئے چہروں اور آزاد خیالی کا کھلا اظہار ہے ۔ چند دولت پرست افراد سماجی و معاشرتی حدود کو پامال کرتے ہیں، یہ تو کسی حد تک سمجھ میں آنے والی بات ہے، مگر ریگولر میڈیا ان کی ایسی حرکات کو کیوں اجاگر کرتا ہے، ان کو پروگرام میں مدعو کیا جاتا ہے اور معاشرے میں کنفیوزن پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب ریٹنگ کا چکر ہے اور چینل بھی توجہ حاصل کرنے کےلئے تنازعات کو ہوا دیتے ہیں۔ باقی دنیا میں اگر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے تفریح کے نام پر غیر اخلاقی مواد موجود ہے، تو ان کے ذریعے مثبت کام بھی لیے جاتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں تو ان سے آزاد روی اور اخلاقی بگاڑ کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ ہر روز اخبارات میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں، جن سے معاشرتی اقدار کی گراوٹ اور ذہنی پستی اور ہیجان خیزی کا پتہ چلتا ہے، اس کے پیچھے یہی میڈیا اور سوشل میڈیا کا خطرناک زہر ہے، جو بڑی تیزی سے آنکھوں کے ذریعے دل و دماغ کو متاثر کر کے نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ لوگ ایسی چیزوں کو کیوں زیادہ دیکھ رہے ہیں، اصل معاملہ ذمہ دار اداروں کی کمزوری اور غفلت ہے، جو ان کی روک تھام کر کے عوام اور کچے ذہن کے نوجوانوں کو بچانے میں ناکام ہے۔