بیرونی امداد۔۔۔۔۔

پاکستان ایک غریب ملک ہے کہ جس کی اشرافیہ امیر ترین ہے۔ غربت کےلئے عوام ہوتے ہیں اور مزے لوٹنے کےلئے حکمران۔ ہم نے ابھی تک یہی دیکھا ہے کہ ہمارے سیاست دان اس وقت تک ملک کے حق میں بات کرتے ہیں جب تک وہ اقتدار میں نہیں آتے اور جب اقتدار کی دیوی ان پر مہربان ہوتی ہے تو اُن کی ساری تقریریں کہ جو وہ عوام الناس کے سامنے کھڑے ہو کر کر تے ہیں وہ سب نسیان کی زینت بن جاتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ جو سیاست دان ہمیں بڑا دھوکہ دیتا ہے وہی ہماری آنکھوں کاتارہ بن جاتا ہے۔ یوں تو ہم سارے ہی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں کیا عوام اور کیا حکمران اس لئے کہ حکمران بھی تو ہم ہی سے میں سے ہیں اور ہم نے ہی ان کو اقتدار کی کرسی پر بٹھاتے ہےں۔ اب ایک انسان کی بنیادی فطرت ایک جھٹکے سے تو تبدیل ¿نہیں کی جا سکتی نا ۔ اس کے بدلتے بدلتے نیا الیکشن سر پہ آ جاتا ہے تو عوام پھر سے فلاں زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور زندہ باد صاحب وہی ہوتے ہیں جو ہمیں لو ٹ کر اب ارب پتی بن چکے ہوتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کی بھیا آپ توکل تک پیدل دوڑیں لگا رہے تھے اور الیکشن میں آ پ کو سواریاں آپ کے دوستوں اور ہمدردوں نے پیش کی تھیں اور اب آپ نے جو گھر میں قیمتی قیمتی گاڑیا ںرکھی ہوئی ہیں اور اب وہ ووٹر جن کے گھروں کے دروازے آپ کھٹکھٹاتے نہیں شرماتے تھے اب اُن کو منہ دکھانے سے بھی رہ گئے ہیں۔ مگر ہوتا یہی ہے کہ وہ لوگ جو ہمارے دروازے پر ووٹ مانگنے آتے تھے وہ ہماری شکلیں بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ وہ جن کو کرائے کی سواریاں ہمارے ہی پیسے سے ملتی تھیں وہ اب بڑی بڑی گاڑیوں پر ہم پر دھول اور کیچڑ اڑاتے گزر جاتے ہیں ۔ ان کو کبھی یاد ہی نہیں رہتا ہے کہ ان کو ہمارے ساتھ بھی کچھ تعلق تھا۔ جن کو ہماری امداد نے اس منصب تک پہنچایا تھا وہ اب ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ ایک مسئلہ بیرونی قرضوں کا ہے جن میں روز بروز اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔۔کیا اس ملک کے ریسورسز اتنے نہیں ہیں کہ ہم اپنا کما اور کھا سکیں ۔مگر ایسا نہیںہے۔ہمارے ملک میں سب کچھ ہے ۔ اگر ہمارا کسان اپنے لئے پیدا کر سکتا ہے اور اپنا کھا سکتا ہے تو ہمارا حکمران کیوں نہیں۔ ہمارے حکمران کو اپنے ذرائع پر اعتماد کیوں نہیں ہے۔ہمارا پاکستان تو وہ خطہ ہے کہ جو پورے ہندستان کےلئے گندم پیدا کرتا تھا۔ آج بھی ہمارا جفاکش کسان اسی طرح گندم پیدا کر رہاہے مگر اس کے باوجود ہمیں بیرونی امداد پر انحصار کیوں کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ایک تو یہ ہے کہ ہمارے بڑے اپنی گندم کو باہر سمگل کر دیتے ہیں اور پھر بیرون ملک سے گندم درآمد کر کے اپنے گھر بھرتے ہیں۔ ہمارے کھیتوں میں سبزیاں بھی اگتی ہیں اور دیگر زرعی اجناس بھی مگر افسوس ہوتا ہے کہ ہمیں سبزیاں بھی ہندوستان سے درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ ہمیں اس پر سوچنا چاہئے کہ ایساکیوں ہے۔ ہم کیوں اپنی زمینوں کی پیداوا ر پر بھروسا نہیں کر رہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود جو درآمد کے سلسلے چلتے ہیں تو اس میں بھی ایک طبقے کے گھر بھرے جاتے ہیں اور اپنا سب کچھ ہونے کے باوجو بیرونی امداد پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو اس میں بھی کوئی راز تو ہے ۔ اور وہ کہ اس بیرونی امداد میں حکمرانوں اور مڈل مینوں کے وارے نیا رے ہوتے ہیں اسی لئے ہم اپنی پیداوار کو سمگل کر دیتے ہیں اور یوں پیسے بناتے ہیںاور پھر درآمدی سودوں میں بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اوریوں دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اور ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک بھی ہم سے معاشی طور پر بہت آگے نکل چکے ہیں مگر ہم کبھی اپنے بازووں پر اعتماد نہیں کر رہے۔