حفیظ مرگ بھی ہے آزمائش ِ احباب

 تھوڑے ہی دنوں میں ایسی بہت سی دکھ بھری خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیںجو بہت تکلیف دہ تھیں ایک کہاوت ہے کہ ” بری خبریں جھوٹ نہیں ہوا کرتیں “ مگر ہم اب ماضی کی ان کہاوتوں سے ایک مختلف زمانے میں سانس لے رہے ہیں، اب بری خبریں کم کم ہی سچ ہوتی ہیں زیادہ تر جھوٹی نکلتیں ہیں، مگر تب جب اس دل پر ہزار خرابی گزر چکی ہوتی ہے،ماضی قریب میں جادوگر معالج اور دوست ِ عزیز ڈاکٹرانتخاب عالم کے حوالے سے ایک دکھ بھری خبر سوشل میڈیا پر اتنی وائرل ہوئی کہ خبر کو جھوٹ ثابت کرنے کے لئے انہیں بستر ِ علالت سے ایک ویڈیو میسج شیئر کرنا پڑا۔ پھر لیجنڈر گائیک شہنشاہ ِپشتو غزل خیال محمد کے حوالے سے ایسی ہی ایک دل دکھانے والی خبر کی تردید خود انہوں نے بھی میسج کے ذریعے کی اور گزشتہ ایک ہفتہ عشرہ میں تو ایسی ہی کئی دکھ بھری خبریں وائرل ہوئیں جس نے سب کو بہت دکھی کردیا مگر پھر جھوٹ ثابت ہوئیں ، چند دن قبل رات گئے میں کام کر رہا تھا کہ رفعت علی اپنا موبائل فون ہاتھ میں لئے پریشان سی میرے کمرے میں آئی اور کہا کہ عالمی شہرت یافتہ دماغی امراض کے ماہر اور صوفی دانشور ڈاکٹر خالد مفتی کی کوئی خیر خبر ہے، لیپ ٹاپ پر میری انگلیاں ہی نہیں سینے میںسانس بھی رک سا گیا بمشکل کہہ سکا خیریت؟ اس نے مو بائل آگے کر دیا ،خواتین کے ایک واٹس گروپ میں خاکم بدہن ان کے بچھڑنے کی خبریں چل رہی تھیں، رفعت علی بہت مضمحل تھی اور اس کا اصرار تھاکہ فون کیا جائے، ڈاکٹر خالد مفتی کے نمبر پر کال کرنے کی تو ہمت نہ تھی اس لئے میں نے برخوردار ڈاکٹر علی احسان کو فون کیا ہر چند بہت رات گزر چکی تھی مگرجاگ رہے تھے بات ہوئی اور معلوم ہوا کہ خبر میں کوئی صداقت نہیں، پھر معروف و مقبول اور قابل احترام فنکار اور شاعر سید ممتاز علی شاہ کے بارے میں خبر تو اتنی دور تک پہنچی کہ ایک دو چینلز پر بھی نشر ہو گئی لیکن بعد میں غلط ثابت ہوئی، پھر گزشتہ شام ایک اور خبر میرے حوالے سے گردش کرنے لگی،جسے سن کر مجھے ستر کی دہائی کے اوائل کا ایک واقعہ یاد آ گیا، ان دنوں میں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت شائع ہونے والے پشتو ماہنامہ ” کاروان “ ہنگو (اورکزئی ایجنسی) کا ایڈیٹر تھا، میں پشاور سے روزانہ ہنگو جایا کرتا تھا ہنگو جانے والی پرائیویٹ بسیں خیبر بازار میں جیل پل کے پاس سے جایا کرتی تھیں، میں وہیں سے جاتا تھا لیکن ایک بار مجھے اپنے مرحوم دوست محمد یوسف عاصی کے گھر رہنا پڑا ،وہاں سے روڈ ویز ہاو¿س قریب تھا جہاں سے سرکاری بس ’ جی ٹی ایس ‘ ملتی تھی وہ مجھے اپنے موٹر بائیک پر وہیں لے آیا ،معلوم ہوا کہ ٹل جانے والی بس نکل چکی ہے اور اب دو گھنٹے بعد ملے گی البتہ بنوں جانے والی بس تیار ہے، میں نے کوہاٹ تک کا ٹکٹ لے لیا کہ وہاں سے ہنگو کے لئے بہت بسیں ملتی تھیں، یوسف عاصی کو خدا حافظ کہہ کر میں بس میں بیٹھ گیا جو اپنے صدر والے اڈے سے ہو کر کوہاٹ روڈ کے راستے روانہ ہو گئی یہاں تک تو کہانی سیدھی سادی ہے مگر جب وہ درہ آدم خیل پہنچی تو ڈرائیور نے پرائیویٹ بس اڈے کے پاس ہی روڈ کے کنارے گاڑی کھڑی کی اور کہا کہ میں ایک منٹ میں آیا پھر اس نے دو بڑے تھیلے اٹھائے اور تیزی سے سامنے گھروں کی طرف چلا گیا شاید وہ گھر کے لئے سودا سلف پشاور سے لایا تھا ،میں بھی گاڑی سے نکل آیا اچانک ایک چھوٹا سا بچہ میرے پاس آیا اور اڈے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا آپ کو استاد بلا رہا ہے،میں نے دیکھا تو ٹل جانے والی بس کا ڈرائیور تھا، چونکہ میں روزجاتا تھا اس لئے سب ڈرائیور جانتے تھے مگر اسے بہت دنوں بعد اسے دیکھا تھا پوچھا تو کہنے لگا کہ کراچی گیا تھا۔پھر کہنے لگا آج آپ نے ہنگو نہیں جانا، میں نے کہا جا رہا ہوں ،کہنے لگا مگر وہ بس تو بنوں جا رہی ہے ، میں نے کہا کوہاٹ سے بس بدل لوں گا، کہنے لگا میرے ساتھ ہی آجاو¿،میں نے سوچا کہ کوہاٹ میں انتظار کرنے سے یہی بہتر ہے، ڈرائیور کے ساتھ ہی سیٹ خالی تھی، میں اپنی بس کے کنڈیکٹر کو کہہ کر ڈرائیور کے ساتھ ہی بیٹھ گیا، کہنے لگا آپ کے لئے کراچی سے لتا کی ایک آڈیو خرید کے لایا ہوں ،وہ بھی سناتا ہوں ، دونوں بسیں آگے پیچھے روانہ ہوئیں ،کوتل چیک پوسٹ پر بھی ہم اکٹھے پہنچے اور جب روانہ ہوئے تو ہم سے چند گزآگے جی ٹی ایس تھی ،پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ بس ذرا سا ڈگمگائی اور پھر بائیں طرف کی انتہائی گہری کھائی میں لڑھکنے لگی، نصف صدی کے بعد اب بھی یہ لکھتے ہوئے جھری جھری سے آ گئی ہے، کس طرح ہم نے زخمیوں کو اوپرسڑک تک پہنچایااور پھر کوہاٹ ہسپتال لے گئے یہ ایک طویل دکھ بھری کہانی ہے کہ راستے میں ہی کئی مسافر دم توڑ گئے تھے، مگر اس کے بعد میں ہنگو جانے کی بجائے پشاور آ گیا اور کوچی بازار رفعت علی کے گھر چلا گیا ہلنے جلنے کی سکت نہ تھی بار بار خیال آتا کہ اگر میں اس بس سے نہ اترا ہوتا تو۔۔، دوسرے دن بھی نہ جاسکا اس دن شام کو ینگ تھنکرز فورم کا اجلاس تھا وہاں گیا تو سب یوں ملنے لگے جیسے مدتوں بعد ملے ہوں ، معلوم ہوا کہ آج کا اجلاس تعزیتی اجلاس ہے اور وہ بھی میری یاد میںہے،کیونکہ اس دن ایک نامعلوم نوجوان کی لاش کی تصویر پشاور کے ایک اخبار میںشائع ہوئی جو بنوں جانے والی بس کے حادثے میں شہید ہوا تھا ،تصویر دیکھ کر میں خود چکرا گیا کیونکہ ہر زاویئے سے وہ میری ہی تصویر لگتی تھی پھر یوسف عاصی نے بھی کنفرم کیا کہ میں اسے اسی بس میں چڑھا آ یا تھا،سو اپنی یاد میں ہونے والے تعزیتی اجلاس کی میں نے ہی صدارت کی اور کہا جس دوست نے جس طرح اور جو بھی سوچا تھا ویسا ہی اب کہہ دے ، سو احباب کے تاثرا ت مزے مزے کے تھے عنایت اللہ شاہد چمکنی نے جو عمدہ مضمون پڑھا تھا اس کا عنوان تھا ” اجل اور تعجل “ اجل بمعنی مرگ تعجل بمعنی عجلت ( جلدی کرنا) اور یہی عجلت ان دنوں بری خبروں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہو رہی ہے۔ گزشتہ شام میں افراز کے ساتھ فون پر کوئی گھنٹہ بھر گپ شپ کر تارہا ،اس کے بعد فون دیکھا تو شکیل نایاب،نعمان قیصر،حماد حسن اور ضیغم حسن کی کالز آئی ہوئی تھیں کال بیک سے معلوم ہوا کہ ” مجھے خبر ہی نہیں اور سوشل میڈیا پرمیری رحلت کی خبر پھیلی ہوئی ہے اور چونکہ میں فون بھی اٹینڈ نہیں کر رہا تھا اس لئے احباب کو مزید پریشانی ہوئی “ در اصل ایک مہربان نے ایک عمدہ ٹی وی فنکار اور میرے دوست علی ناصر کی رحلت کی خبر کو ’ناصر علی سیّد کے نام کے ساتھ پھیلا دیا تھا، میری ساری شام اس غلط فہمی کو دور کرنے میں لگی دوست مہرباں قاضی جمیل الرحمان ( آئی جی،اسلام آباد ) کا میسج آیا ” بہت بری بات ہے یہ لوگ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں “ میں نے کہا یہ زمانہ اب ” کاتا اور لے دوڑی “ کا ہے تصدیق کا وقت کسی کے پاس نہیں “ وہی اجل اور تعجل کا معاملہ ہے جو جاری ہے ، کم از کم ا س طرح احباب کے تاثرات سے مجھے تو جیتے جی آگاہ ہونے کا مو قع مل گیامیں نے نصف صدی پہلے کے صدارتی کلمات میں جو شعر پڑھا تھا آج بھی وہی کہہ رہاہوں۔
 حفیظ مرگ بھی ہے آزمائشِ احباب
کہ دیکھیں اپنے جنازے پہ کون آ تا ہے