مونن ہری پور کے پہلو میں ایک چھوٹا سا گاو¿ں تھا ( اب یہ بہت بڑا ہو گیا ہے) ایک چھوٹے سے گاو¿ں کے پاس اپنے دفاع کا بھی اتنا چھوٹا سا ہی انتظام ہو تا ہے۔ سکھوں نے جب ہزارہ پر چڑھائی کی توبہت دفعہ کی شکست کے بعد ایک منصوبے کے تحت انہوں نے کوٹ نجیب اللہ پر قبضہ کر لیا اور وہاںسے ہزارہ کے دوسرے شہروں پر حملے شروع کر دیئے۔ ظاہرہے کہ ہزارہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اور سکھوں کی ان پہاڑی علاقوں میں جنگ جیتنا مشکل ہی تھا اس لئے جہاں بھی انہوں نے حملہ کیا انہیں شکست کا سامنا ہی کرنا پڑا۔جب بھی وہ کہیں سے شکست کھا کر واپس آتے تو ان کا کمانڈر کہتا کہ” چلو مونن نوں گھیر لو“ یعنی یہ ایک آسان ہدف ہے اس لئے ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے شکست نہیںکھائی بلکہ ہم نے جنگ جیتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہوا ہے کہ ہماری حکومت جب بھی کوئی کمی محسوس کرتی ہے تو کہہ دیتی ہے کہ یہ سارا کچھ اگلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ چلیں وہی ذمہ دار ہو گی مگر ایک حکومت کو پہلی حکومتوں کی کمیاں پوری کرنے کے لئے کتنا عرصہ درکار ہو تا ہے۔ اب تک تو اس حکومت نے پرانی حکومتوں کی غلطیوں کا ازالہ کر لینا چاہئے تھا ‘اب بجلی کو ہی دیکھ لیں ۔ہرماہ کسی نہ کسی مدمیں بجلی کو مہنگا کر دیا جاتا ہے اور ہزاروں روپے عوام کی جیبوںسے نکال لئے جاتے ہیں۔ فیول ایڈجسٹمنٹ ایک ایساحربہ ہے کہ جو ہر مہینے عوام پر اپلائی ہوتا ہے اور عوام اس ایڈ جسٹمنٹ کے لئے اپنی توانائیاں صر ف کر دیتی ہے۔ اب بجلی ایک ایساعنصر ہے کہ جو ہر ضرورت کی چیزپر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس کی مہنگائی ہر ضرورت کی چیز کو مہنگا کر دیتی ہے۔ اب تک دیکھا جائے تو سٹیسٹکس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق مہنگائی میںبہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اورہر ماہ اشیائے ضروریہ کی بہت سی اشیاءمہنگی ہو جاتی ہیں اور مہنگی بھی کوئی آنے دوانی کے حساب سے نہیں بلکہ دس بیس روپے کی صورت میں مہنگی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب پٹرول ملنا بندہو گیا تو ہمارے تونائی کے وزیر نے ایک ہی ہلے میں پٹرول کو پچیس روپے فی لیٹر کے حساب سے مہنگا کر دیا۔ اس سے کس کو فائدہوا یہ الگ بات ہے مگرجیسے ہیں پٹرو ل کی قیمت کو زیادہ کیا گیاہر پٹرول پمپ سے دستیاب تھا۔ جو ایک منٹ پہلے کہہ رہے تھے کہ پٹرول ختم ہو گیا ہے وہ دوسرے ہی لمحے گاڑیوں کی ٹینکیاں بھر رہے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت بہت ہی اچھے کام کر رہی ہے جس میں احساس پروگرام ہے یا صحت کارڈ کا اجرا ءہے یا دیگر عوام کی سہولت کے پروگرام ہیں جس کےلئے عوام اس حکومت کی تعریفیں بھی کر رہے ہیں اور بھلے کر رہے ہیں مگر اشیائے ضروریات کا ناپید ہونا یا ہر روز مہنگاہونا البتہ عوام کے لئے عذاب کا باعث ہے۔ اس کا بھی کچھ بندوبست ہونا چاہئے۔ حکومت کے بیسیوں اچھے کاموں پر ایک کام پانی پھیر دیتا ہے۔ حکومت نے اتنی زیادہ عوام کی بہتری کے پروگرام نہ صرف دیئے ہیں بلکہ ان پر عمل کرکے بھی دکھایا ہے مگر ایک بجلی کو مہنگا کرنا ان سب پر پانی پھیر گیا ہے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے بڑھ گئی ہے اور اس میں کچھ لوگوں کو ریلیف تو دیا گیا ہے مگر سب لوگوں کو توصحت کار ڈ نہیں مل سکا مگر دوائیوں کی قیمتیں آسمان کو پہنچ گئی ہیں جس سے اور عوام کے علاوہ خصوصاً پنشنر زیادہ متاثر ہوئے ہیں کہ پنشنوں میں تو اضافہ نہیں کیا گیا مگر دوائیوں کی قیمتوں میں چھ سات سو فی صد اضافہ ہو گیا ہے اور دوائیاں پنشنروں کے لئے کتنی ضروری ہیں یہ کوئی بوڑھا شخص ہی محسوس کر سکتا ہے۔ اسی طرح روزمرہ کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ جس طرح تنخواہ دار طبقے کو متاثر کر رہاہے وہ شاید ہمارے حکمرانسمجھ نہیںرہے کہ اس طبقے کی تنخواہوں میں ایک پائی کا اضافہ نہیں کیا گیا مگر اشیائے ضروریہ روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرف بھی دھیان ضروری ہے۔